> <

1876-12-25
11529 Views
قائداعظم محمد علی جناح/بانی پاکستان بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اسی شہر سے حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان تشریف لے گئے جہاں انہوں نے 1896ء میں بار ایٹ لاء کا امتحان پاس کیا۔ وطن واپس لوٹنے کے بعد وہ وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے اور پھر 1909ء میں مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے۔ قائداعظم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس میں شمولیت سے کیا، پھر کچھ عرصہ تک وہ کانگریس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے رکن بھی رہے لیکن جب ان پر کانگریس کے انتہا پسند ہندو لیڈروں کے عزائم آشکار ہوئے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلم لیگ کے ہوگئے اور اس تنظیم کے پرچم تلے برصغیر کے مسلمانوں کو مجتمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ 1929ء میں انہوں نے موتی لال نہرو کو نہرو رپورٹ کے جواب میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے۔ جن میں برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل کا حل تجویز کیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے لندن میں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ پھر وہ کچھ عرصے کے لیے سیاست سے دلبرداشتہ ہوکر انگلستان ہی میں مقیم ہوگئے لیکن جب ہندوستان کے مسلمانوں نے انہیں اپنی قیادت کے لیے آواز دی تو وہ اس پر لبیک کہتے ہوئے وطن واپس لوٹ آئے۔ 1937ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور پھر قیام پاکستان تک اس عہدے پر فائز رہے۔ 1940ء میں ان کی زیر صدارت لاہور میں تاریخی قرارداد پاکستان پیش کی گئی جس میں واشگاف الفاظ میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ ان کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں یہ مطالبہ انگریزوں نے بھی تسلیم کیا اوربالآخر 1947ء میں دنیا کے نقشے پر ایک نئی مسلم ممالک ’’پاکستان‘‘ کا اضافہ ہوگیا۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ وہ پاکستان کے لیے بہت کچھ کرنے کے خواہاں تھے لیکن ان کی بیماری نے ان کے تعمیری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا اور مسلمانانِ پاکستان 11 ستمبر 1948ء کو اپنے اس عظیم رہنما کی قیادت سے محروم ہوگئے۔    
1899-11-13
14665 Views
اسکندر مرزا /صدرِ پاکستان پاکستان کے چوتھے گورنر جنرل اور پہلے صدر سکند مرزا میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔ ان کے پر دادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا۔ اسکندر مرزا 13نومبر 1899ء کو پیدا ہوئے تھے ۔ انہوں الفنسٹن کالج بمبئی میں تعلیم پائی۔ کالج کی تعلیمی زندگی میں ہی رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ میں داخلہ مل گیا۔ وہاں سے کامیاب ہو کر 1919 ء میں واپس ہندوستان آئے۔ 1921ء میں کوہاٹ کے مقام پر دوسری سکاٹش رائفل رجمنٹ میں شریک ہوئے اور خداداد خیل میں لڑائی میں حصہ لیا۔ 1924ء میں وزیرستان کی لڑائی میں شریک ہوئے۔ 1922 سے 1924ء تک پونا ہارس رجمنٹ میں رہے جس کا صدر مقام جھانسی تھا۔ 1926ء میں انڈین پولیٹیکل سروس کے لیے منتخب ہوئے اور ایبٹ آباد ، بنوں ، نوشہرہ اور ٹانک میں بطور اسسٹنٹ کمشنر کام کیا۔ 1931ء سے 1936ء تک ہزارہ اور مردان میں ڈپٹی کمشنر رہے۔ 1938ء میں خیبر میں پولیٹکل ایجنٹ مامور ہوئے۔ انتظامی قابلیت اور قبائلی امور میں تجربے کے باعث 1940ء میں پشاور کے ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔ یہاں 1945ء تک رہے۔ پھر ان کا تبادلہ اڑیسہ کر دیا گیا۔ 1942ء میں حکومت ہند کی وزارت دفاع میں جوائنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد سکندر مرزاحکومت پاکستان کی وزارت دفاع کے پہلے سیکرٹری نامزد ہوئے ۔ مئی 1954 میں مشرقی پاکستان کے گورنر بنائے گئے، پھر وزیر داخلہ بنے۔ ریاستوں اور قبائلی علاقوں کے محکمے بھی ان کے سپرد کیے گئے۔ ملک غلام محمد کی صحت کی خرابی کی بنا پر  6 اگست 1955 کو قائم مقام گورنر بن گئے۔ 5 مارچ 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اور 23مارچ 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے ۔  سیاسی بحران کے سبب 7 اکتوبر 1958ء کو پہلا ملک گیر  مارشل لاء نافذ کیا۔بیس دن بعد 27 اکتوبر1958ء کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریڑ فیلڈ مارشل ایوب خان نے انہیں برطرف کرکے جلا وطن کردیا جس کے بعد سکندر مرزا نے اپنی زندگی کے باقی ایام لندن میں گزارے۔ ایوب خان کی معزولی کے بعد سکندر مرزا نے وطن واپس آنے کی کوشش کی لیکن انہیں اس کی اجازت نہیں ملی ۔ بالآخر 13نومبر 1969ء کو ان کی سترویں سالگرہ کے دن لندن ہی میں ان کا انتقال ہوگیا۔  15نومبر 1969ء کو انہیں پورے سرکاری اعزازات کے ساتھ تہران میں دفن کردیا گیا ۔        
1905-07-15
6546 Views
چوہدری محمد علی ٭15جولائی 1905ء پاکستان کے سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی کی تاریخ پیدائش ہے۔ چوہدری محمد علی ننگل انبیا، تحصیل نکودر ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ 1928ء میں انڈین آئوٹ اینڈ اکائونٹس سروس میں شامل ہوئے اور تیزی سے ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے ایڈیشنل سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ قیام پاکستان سے پہلے جب عارضی حکومت میں لیاقت علی خان وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے بطور مشیر اعلیٰ ان کاوہ بجٹ تیار کرنے میں بڑی مدد کی جسے غریبوں کا بجٹ کہا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کے پہلے سیکریٹری جنرل اور 1951ء میں وفاقی وزیر خزانہ بنے۔ 1955ء میں دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 11 اگست 1955ء سے 12 ستمبر 1956ء تک پاکستان کے وزیراعظم رہے۔ ان کے عہد حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کے پہلے آئین کی منظوری تھا۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ تاہم محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخابات میں انہوں نے فعال کردار ادا کیا۔انہوں نے تحریک پاکستان کے موضوع پر Emergence of Pakistan کے نام سے ایک کتاب بھی تحریر کی تھی جس کا ترجمہ ’’ظہور پاکستان‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔ یکم دسمبر 1980ء کو چوہدری محمد علی کراچی میں وفات پاگئے ۔
1915-01-20
8780 Views
غلام اسحاق خان /صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان20 جنوری 1915ء کو اسماعیل خیل بنوں میں پیدا ہوئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس سی کرنے کے بعد 1940ء میں انہوں نے صوبہ سرحد کی سول سروس سے اپنے شاندار کیریئر کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ صوبہ سرحد کے ہوم سیکریٹری، سیکریٹری محکمہ خوراک، صوبائی ترقیات کے سیکریٹری اور کمشنر ترقیات رہے۔ ایسے ہی کئی اور عہدوں پر خدمات انجام دینے کے بعد یکم فروری 1961ء کو انہیں واپڈا کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ وہ اس عہدے پر 11 اپریل 1966ء تک فائز رہے۔ انہوں نے وفاقی سیکریٹری مالیات، گورنر اسٹیٹ بنک اور سیکریٹری دفاع کے عہدوں پر بھی خدمات انجام دیں۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں سیکریٹری جنرل انچیف مقرر کیا۔ یہ عہدہ وفاقی وزیر کے عہدے کے برابر تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور ہی میں وہ وزیر خزانہ بھی رہے۔ مارچ 1985ء میں وہ سینٹ آف پاکستان کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 17 اگست 1988ء کو فضائی حادثہ میں جنرل ضیاء الحق کی ناگہانی موت کے بعد انہوںنے پاکستان کے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالا۔ 12 دسمبر 1988ء کو وہ پاکستان کے مستقل صدر منتخب ہوئے، وہ اپنے اس عہدے پر 19 جولائی 1993ء تک فائز رہے۔ انہوں نے اگست 1990ء اور اپریل 1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کی حکومتوں کو رخصت کیا اور یوں اپنے کیریئر کے آخری زمانے میں وہ ایک متنازع شخصیت کی شکل میں سامنے آئے۔ صدارت کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد انہوں نے اپنی عمر کا بقیہ حصہ پشاور میں بسر کیا۔27 اکتوبر 2006ء کو پشاور ان کا انتقال ہوگیا اور وہ پشاور ہی میں یونیورسٹی ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔حکومت پاکستان نے انہیں ہلال پاکستان اور ستارۂ پاکستان کے اعزازات سے نوازا تھا۔      
1918-04-19
5580 Views
قائداعظم محمد علی جناح ٭19 اپریل 1918ء کو قائداعظم محمد علی جناح رتن بائی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ رتن بائی جو رتی جناح کے نام سے معروف ہیں 20 فروری 1900ء کو بمبئی میں پیدا ہوئی تھیں۔ قائداعظم محمد علی جناح ان کے والد سر ڈنشا پیٹٹ کے دوستوں میں شامل تھے۔ ان کی شخصیت نے رتی کو  اس قدر متاثر کیا کہ ان کی قربت محبت میں بدل گئی۔ 18 اپریل 1918ء کو رتی نے بمبئی کی جامع مسجد کے امام مولانا نذیر احمد خجندی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ ان کا اسلامی نام مریم رکھا گیا، اگلے دن 19 اپریل 1918ء کو وہ قائداعظم محمد علی جناح کے عقد میں آگئیں۔ ان کا نکاح مولانا حسن نجفی نے پڑھایا تھا۔ یہ وہ زمانہ جب قائداعظم اپنی سیاسی سرگرمیوں میں بے انتہا مصروف تھے اور اکثر انہی مصروفیات کی وجہ سے شہر سے باہر بھی رہا کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں میاں بیوی نے اختلافات رونما ہونے لگے اور ایک وقت وہ آیا جب رتی اپنا گھر چھوڑ کر ایک ہوٹل میں منتقل ہوگئیں، 1928ء میں وہ شدید بیمار پڑیں اور علاج کے لیے پیرس چلی گئیں۔ قائداعظم کو جب یہ اطلاع ملی تو وہ بھی ان کی تیمارداری کے لیے پیرس پہنچ گئے اور ایک ماہ تک ان کے ساتھ رہے۔ یوں ان دونوں کے تعلقات ایک مرتبہ پھر بحال ہوگئے۔ چند ماہ بعد رتی جناح وطن واپس آگئیں مگر ان کی طبیعت نہ سنبھل سکی اور 20 فروری 1929ء کو ان کی 29 ویں سالگرہ کے دن ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ بمبئی کے آرام باغ قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ قائداعظم اور رتن بائی کی شادی کی یادگار ان کی صاحبزادی دینا واڈیا ہیں جو ممبئی میںقیام پذیر ہیں۔  
1924-08-12
5127 Views
 جنرل محمد ضیا الحق پاکستان کی مسلح افواج کے آٹھویں سربراہ جنرل محمد ضیا الحق 12 اگست 1924 ء کو میں جالندھر میں ایک غریب کسان محمد اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ 1945ء میں فوج میں کمیشن ملا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برما ، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں۔ آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوئے۔ 1960ء تا 1968ء ایک کیولر رجمنٹ کی قیادت کی۔ اُردن کی شاہی افواج میں خدمات انجام دیں۔ مئی 1969ء میں آرمرڈ ڈویڑن کا کرنل سٹاف اور پھر بریگیڈیر بنا دیا گیا۔ 1973 میں میجر جنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر کور کمانڈر بنا دیا گیا۔ یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پر ترقی پا کر پاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے عام انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یوں ملک میں سیاسی حالت ابتر ہو گئی۔ پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے اور 4 جولائی 1977 کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اور پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان 17 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا معاہدہ ہوا۔ تاہم ضیاالحق جوپس پردہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے اور مارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، کو یہ معاہدہ منظور نہیں تھا۔ انہوں نے یہ  خبر اخبارات کی زینت بننے سے پہلے  5 جولائی 1977 کوشب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ضیا الحق نے آئین معطل نہیں کیا اور  اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کروانا ہے دوسرے فوجی حکمرانوں کی طرح یہ نوے دن گیارہ سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے شدید مزاحمت کی جس کے نتیجہ میں ان کو گرفتار کر لیاگیا۔ ان پر ایک قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ ہائیکورٹ نے ان کو سزا موت سنائی اور سپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کر دی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔یوں ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لاء کو دوام حاصل ہوا۔ اس کے بعد ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ پیپلز پارٹی کو اقتدار سے دور رکھاجائے اس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا۔ اور بار بار الیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا۔ فروری 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیا۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر 30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیاگیا اور بے اعتمادی کی بنیاد پر آٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988ء کو جونیجو صاحب کی حکومت برطرف کر دی۔ ان پر نااہلی اور بدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ اسلام نظام نافذ کرنے کے کی ان کی تمام کوششوں پر پانی پھر گیا ہے۔ 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاالحق بہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہوگئے ۔ وہ اسلام آباد میں فیصل مسجد کے نزدیک آسودئہ خاک ہیں ۔        
1928-01-05
12741 Views
 ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے تیسرے صدر ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928ء کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے بمبئی ، کیلیفورنیا اور آکسفرڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کیا اور ایس ایم لاء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔ جلد ہی ان کی شہرت حکومتی ایوانوں تک جا پہنچی۔ 1958ء میں ایوب خان نے انہیں اپنی کابینہ میں بطور وزیر شامل کیا۔ 1963ء میں وہ پاکستان کے وزیرخارجہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ ان کے اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی میں انقلاب آگیا اور پاکستان عالمی تعلقات کے ایک نئے دور میں داخل ہوگیا۔ ستمبر 1965ء میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔ جنوری 1966ء میں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔ 30 نومبر 1967ء کو انہوں نے لاہور میں پاکستان پیپلزپارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جو بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں انہوں نے مغربی پاکستان میں واضح کامیابی حاصل کی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1971ء میں پاکستان کے صدر اور پھر 1973ء میں پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے 1977ء کے عام انتخابات میں بھی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی مگر حزب اختلاف نے ان انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ حزب اختلاف نے انتخابی نتائج کے خلاف ایک ملک گیر تحریک چلائی جس کے نتیجے میں 5جولائی 1977ء کو مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق نے جناب ذوالفقار علی بھٹوکو ان کے عہدے سے معزول کرکے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ دو ماہ بعد ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا۔ 18 مارچ 1977ء کو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ تین ججوں نے انہیں بری کرنے کا اور تین ججوں نے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس ، جسٹس انوار الحق نے اپنا وزن ان ججوں کے پلڑے میں ڈال دیا جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی موت کی سزا کے توثیق کی تھی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں تختہ دار پر پہنچا کر ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا گیا۔  
1932-08-18
8638 Views
محمد خان جونیجو ٭ پاکستان کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ کے مرکزی صدر محمد خان جونیجو 18 اگست 1932ء کوسانگھڑ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ صدر ایوب خان کے زمانے میں سیاست میں نمایاں ہوئے اور صوبائی وزارت پر فائز ہوئے۔ 1985ء میں وہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، انہوں نے 8 سالہ مارشل لاء اور 20 سالہ ایمرجنسی کا خاتمہ کیا، ملک میں جمہوری پارلیمانی نظام بحال کیا، سلب شدہ بنیادی حقوق بحال کئے، مارشل لاء کے خاتمے کے لئے قومی اسمبلی سے آٹھویں ترمیم منظور کروائی اور پھر خود ہی اس کا پہلا شکار بنے۔ وہ سادگی اور شرافت کا پیکر تھے۔ 18 مارچ 1993ء کو امریکا کے شہر بالٹی مور کے ایک ہسپتال میں محمد خان جونیجو کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً 61 برس تھی۔  انہیں خون کے سرطان کا عارضہ لاحق تھا۔20 مارچ 1993ء کو محمد خان جونیجو کو ان کے آبائی گائوں سندھڑی میں سپردخاک کردیا گیا۔      
1941-03-30
9653 Views
وسیم سجاد پاکستان کے سابق نگراں صدر وسیم سجاد 30 مارچ 1941ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ وہ جسٹس سجاد احمد جان کے صاحبزادے ہیں ۔ وسیم سجاد نے پنجاب یونیورسٹی، یونیورسٹی لاء کالج لاہور اور اوکسفرڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا تاہم جلد ہی قانون کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ 1985ء میں وہ سینٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے اور 24 دسمبر 1988ء کو سینٹ کے چیئر مین کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1991میں وہ دوسری مرتبہ سینٹ کے چیئر مین کے عہدے پر منتخب ہوئے۔ 18 جولائی 1993ء کو جب غلام اسحاق خان اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے تو وسیم سجا د سینٹ کے چیئر مین ہونے کے ناتے پاکستان کے نگراں صدر مملکت بن گئے۔ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندے کے طور پراگلے صدارتی انتخاب میں بھی حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے اور ایک مرتبہ پھر سینٹ کے چیئر مین کی ذمہ داریاں نبھانے لگے۔ وسیم سجاد 1997 ء میں تیسری مرتبہ سینٹ کے چیئر مین منتخب ہوئے ۔ دسمبر 1997ء میں جب فاروق احمد لغاری اپنے عہدئہ صدارت سے مستعفی ہوئے تو  وسیم سجا د سینٹ کے چیئر مین ہونے کے ناتے  ایک مرتبہ پھرپاکستان کے نگراں صدر مملکت بن گئے۔ اس مرتبہ وہ اس عہدے پر جناب رفیق تارڑ کے صدر منتخب ہونے تک متمکن رہے ۔      
1947-08-14
11529 Views
قائداعظم محمد علی جناح/بانی پاکستان بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اسی شہر سے حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان تشریف لے گئے جہاں انہوں نے 1896ء میں بار ایٹ لاء کا امتحان پاس کیا۔ وطن واپس لوٹنے کے بعد وہ وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے اور پھر 1909ء میں مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے۔ قائداعظم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس میں شمولیت سے کیا، پھر کچھ عرصہ تک وہ کانگریس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے رکن بھی رہے لیکن جب ان پر کانگریس کے انتہا پسند ہندو لیڈروں کے عزائم آشکار ہوئے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلم لیگ کے ہوگئے اور اس تنظیم کے پرچم تلے برصغیر کے مسلمانوں کو مجتمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ 1929ء میں انہوں نے موتی لال نہرو کو نہرو رپورٹ کے جواب میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے۔ جن میں برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل کا حل تجویز کیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے لندن میں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ پھر وہ کچھ عرصے کے لیے سیاست سے دلبرداشتہ ہوکر انگلستان ہی میں مقیم ہوگئے لیکن جب ہندوستان کے مسلمانوں نے انہیں اپنی قیادت کے لیے آواز دی تو وہ اس پر لبیک کہتے ہوئے وطن واپس لوٹ آئے۔ 1937ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور پھر قیام پاکستان تک اس عہدے پر فائز رہے۔ 1940ء میں ان کی زیر صدارت لاہور میں تاریخی قرارداد پاکستان پیش کی گئی جس میں واشگاف الفاظ میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ ان کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں یہ مطالبہ انگریزوں نے بھی تسلیم کیا اوربالآخر 1947ء میں دنیا کے نقشے پر ایک نئی مسلم ممالک ’’پاکستان‘‘ کا اضافہ ہوگیا۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ وہ پاکستان کے لیے بہت کچھ کرنے کے خواہاں تھے لیکن ان کی بیماری نے ان کے تعمیری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا اور مسلمانانِ پاکستان 11 ستمبر 1948ء کو اپنے اس عظیم رہنما کی قیادت سے محروم ہوگئے۔    
UP