> <

1924-09-13
6114 Views
جسٹس دراب پٹیل ٭ پاکستان کے نامور ماہر قانون اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس (ر) دراب پٹیل  13 ستمبر 1924ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ جسٹس دراب پٹیل کا تعلق ایک کاروباری پارسی خاندان سے تھا۔ اپنی پیدائش کے ساتھ ہی وہ والدہ کے سائے سے محروم ہوگئے تھے چنانچہ ان کی تعلیم و تربیت ان کی دادی نے کی جو بمبئی میں مقیم تھیں۔ دراب پٹیل نے بمبئی میں ایم اے اور ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی جس کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لئے وہ انگلستان چلے گئے۔ 1954ء میں وہ پاکستان آگئے اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ 1966ء میں وہ مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے اور 1976ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے۔ درمیان میں انہیں بلوچستان یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا۔وہ سپریم کورٹ کی اس بنچ کے رکن تھے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل کی سماعت کی تھی۔ اس مقدمے میں جسٹس (ر) دراب پٹیل نے اپنا اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا اور بھٹو کو رہا کرنے کی سفارش کی تھی۔ 1981ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے پی سی او نافذ کیا تو جسٹس دراب پٹیل نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد تادم مرگ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ وہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے بانی اور تاحیات چیئرمین تھے۔ 15 مارچ 1997ء کو جسٹس (ر) دراب پٹیل کراچی میں وفات پاگئے۔
1924-10-05
4673 Views
ڈاکٹر جاوید اقبال ٭5 اکتوبر 1924ء کو پاکستان کے مشہور ماہر قانون اور ادیب ڈاکٹر جاوید اقبال پیدا ہوئے۔ وہ علامہ اقبال کے صاحبزادے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے پنجاب یونیورسٹی انگریزی اور فلسفے میں ایم اے کے امتحانات پاس کیے بعدازاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا اور لندن سے بار ایٹ لاء کا امتحان پاس کیا۔ 1956ء میں انہوں نے لاہور میں وکالت کا آغاز کیا اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں بھی پاکستانی وفد کی رکن کی حیثیت سے شرکت کی۔ 1971ء میں وہ لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور 23 مارچ 1981ء سے 4 اکتوبر 1986ء تک اس اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس رہے۔ بعدازاں وہ سپریم کورٹ میں بھی جج کے منصب پر فائز ہوئے اور 1989ء تک اس عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے۔ جسٹس جاوید اقبال کی تصانیف میں مئے لالہ فام، نظریہ پاکستان، میراث قائداعظم،علامہ اقبال کی سوانح عمری زندہ رود اور ان کی اپنی خود نوشت سوانح ’’اپنا گریباں چاک‘‘ کے نام سرفہرست ہیں۔ وہ لاہور میں قیام پذیر ہیں۔
1962-11-15
4904 Views
جسٹس محمد رستم کیانی ٭15 نومبر 1962ء پاکستان کی عدلیہ کے انتہائی قابل احترام جج اور اردو کے ادیب جسٹس محمد رستم کیانی چاٹگام میں وفات پاگئے۔ جسٹس محمد رستم کیانی 18 اکتوبر 1902ء کو پیدا ہوئے تھے۔ان کا تعلق ضلع کوہاٹ کے ایک گائوں شاہ پور سے تھا۔ وہ ایڈورڈ کالج پشاور‘ گورنمنٹ کالج لاہور اور ٹرینی کالج کیمبرج کے فارغ التحصیل تھے۔ 1927ء میں وہ انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔ بعد ازاں ان کی خدمات عدلیہ کے شعبے میں منتقل کردی گئیں۔ قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں وہ لاہور ہائی کورٹ کے جج اور 1959ء میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ 18 اکتوبر 1961ء کو وہ اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ جسٹس کیانی نے عدالت عالیہ سے وابستگی کے دنوں میں حق پسندی اور صداقت کی جو روایت قائم کی اس کو ان کے مداحوں اور مخالفوں‘ سبھی نے خراج تحسین پیش کیا۔ مارشل لاء کے دنوں میں جسٹس کیانی کے بعض فیصلے اہل حکومت کو ناگوار گزرے مگر جسٹس کیانی نے کبھی حق گوئی کو مصلحت کیشی پر حاوی نہیں آنے دیا۔ اکتوبر 1958ء میں ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد سے سرکاری ریڈیو اور اخبارات مسلسل فوج کی مدح سرائی میں مصروف تھے اور قوم کو تصویر کا صرف ایک رخ دکھایا جارہا تھا۔ برہنہ آمریت اور جبر و تشدد کے ان دنوں میں واحد آواز جو قانون کی حکمرانی، آزادیٔ اظہار اور شہری آزادیوں کے حق میں مسلسل بلند ہوتی رہی وہ آواز نحیف و نزار جسٹس ایم آر کیانی کی تھی جو ان دنوں مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ایسی ہی ایک تقریر انہوں نے 11 دسمبر 1958ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ انہوں نے کہاکہ مارشل لاء کا نفاذ سب سے بڑی آفت ہے جو کسی قوم پر نازل ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ بدنصیبی تنہا نہیں آتی اس کے ساتھ فوجی دستے بھی ہوتے ہیں لیکن اس بار تو پوری فوج اس کے ساتھ ہے۔ جسٹس محمد رستم کیانی ایک شعلہ بیان مقرر اور نکتہ آفرین ادیب تھے۔ ان کی تقاریر اور مضامین کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں افکار‘ پریشاں‘ دی ہول ٹرتھ اور ناٹ دی ہول ٹرتھ کے نام خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی خواہش پر قائد اعظم کی سوانح لکھنے کا بیڑا اٹھایا تھا مگر موت نے انہیں اس کام کی مہلت نہیں دی۔ 15 نومبر 1962ء کو جسٹس محمد رستم کیانی چاٹگام میں انتقال کرگئے۔          
1981-06-26
6397 Views
جسٹس محمد منیر ٭26 جون 1981ء کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے متنازع چیف جسٹس، جسٹس محمد منیر وفات پاگئے۔ جسٹس محمد منیر 3مئی 1895ء کو پٹیالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہیں بعض اہم مناصب پر خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ انہوں نے ریڈ کلف ایوارڈ میں مسلمانوں کی نمائندگی کی، لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ان کے قتل کیس کی تفتیش کرانے والے کمیشن کی سربراہی کی۔ 1953ء کے فسادات کے اسباب کی تفتیش کرنے والے کمیشن کے سربراہ رہے۔ 29 جون 1954ء سے 2 مئی 1960ء تک پاکستان کے چیف جسٹس رہے اور بعدازاں ایک مختصر دورانیے کے لئے ا نہوں نے صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر قانون کے فرائض بھی انجام دیئے۔ بطور چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس منیر کا وہ فیصلہ آج بھی متنازع سمجھا جاتا ہے جس میں انہوں نے 1954ء میں غلام محمد کے دستور ساز اسمبلی کے توڑے جانے کے کو نظریہ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے جائز قرار دیا تھا۔ اس فیصلے کو متنازع سمجھے جانے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ خود جسٹس منیر نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اعتراف کیا تھا کہ ان کا یہ فیصلہ حالات کے دبائو کا نتیجہ تھا۔ اپنے آخری زمانے میں انہوں نے ایک کتاب Jinnah to Ziaتحریر کی تھی جس میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ جسٹس محمد منیر لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
1991-12-21
6178 Views
جسٹس اے آر کارنیلیئس ٭ 21 دسمبر 1991ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس اور سابق وفاقی وزیر جسٹس اے آر کارنیلیئس لاہور میں انتقال کر گئے۔انہیں مسیحی قبرستان‘ جیل روڈ‘ لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔ جسٹس (ر) اے آر کارنیلیئس کا پورا نام ایلون رابرٹ کارنیلیئس تھا۔ وہ یکم مارچ 1903ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 1926ء میں وہ انڈین سول سروس سے وابستہ ہوئے۔ 1950-51ء میں وہ حکومت پاکستان کی وزارت قانون سے وابستہ ہوئے۔ نومبر 1951ء میں انہیں فیڈرل کورٹ کا جسٹس مقرر کردیا گیا۔ 1960ء سے 1968ء تک وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے منصب پر فائز رہے۔ 1964ء میں انہیں پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر آف لاز کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ 1967ء میں حکومت پاکستان نے انہیں ہلال پاکستان کا اعزاز عطا کیا۔ 1969ء سے 1971ء تک وہ وفاقی وزیر کے منصب پرفائز رہے۔  
1997-03-15
6114 Views
جسٹس دراب پٹیل ٭ پاکستان کے نامور ماہر قانون اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس (ر) دراب پٹیل  13 ستمبر 1924ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ جسٹس دراب پٹیل کا تعلق ایک کاروباری پارسی خاندان سے تھا۔ اپنی پیدائش کے ساتھ ہی وہ والدہ کے سائے سے محروم ہوگئے تھے چنانچہ ان کی تعلیم و تربیت ان کی دادی نے کی جو بمبئی میں مقیم تھیں۔ دراب پٹیل نے بمبئی میں ایم اے اور ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی جس کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لئے وہ انگلستان چلے گئے۔ 1954ء میں وہ پاکستان آگئے اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ 1966ء میں وہ مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے اور 1976ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے۔ درمیان میں انہیں بلوچستان یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا۔وہ سپریم کورٹ کی اس بنچ کے رکن تھے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل کی سماعت کی تھی۔ اس مقدمے میں جسٹس (ر) دراب پٹیل نے اپنا اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا اور بھٹو کو رہا کرنے کی سفارش کی تھی۔ 1981ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے پی سی او نافذ کیا تو جسٹس دراب پٹیل نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد تادم مرگ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ وہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے بانی اور تاحیات چیئرمین تھے۔ 15 مارچ 1997ء کو جسٹس (ر) دراب پٹیل کراچی میں وفات پاگئے۔
2007-03-09
3503 Views
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ٭9 مارچ 2007ء کو صدر مملکت جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اپنے صدارتی کیمپ آفس راولپنڈی میں مدعو کیا اور ان پر ان کے اختیارات کے غلط استعمال، مس کنڈکٹ اور منصب کے منافی دیگر سنگین الزامات سے آگاہ کرکے انہیں عہدے سے مستعفی ہونے کا حکم دیا۔ لیکن جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ان کے انکار کے بعد صدر پرویز مشرف نے انہیں ان کے عہدے پر کام کرنے سے روک دیا اور ان کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کردیا جس نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو 13 مارچ 2007ء کو عدالت میں طلب کرلیا۔ اسی شام جسٹس جاوید اقبال نے پاکستان کے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھالیا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا بھرپور دفاع کیا۔ یہ مقدمہ 20 جولائی 2007ء تک جاری رہا اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں قائم فل بنچ نے 43 روز سماعت کے بعد اکثریت رائے سے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کردیا اور ان کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا۔ (مزید تفصیلات کے لئے دیکھئے:20 جولائی 2007ء)        
2009-03-16
3193 Views
جسٹس افتخار محمد چوہدری ٭ مارچ2007ء سے مارچ 2009ء تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ، جسٹس افتخار محمد چوہدری کی اپنے عہدے سے جبری معزولی اور بحالی پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ بنا رہا۔ 9 مارچ 2007ء کو صدر جنرل پرویز مشرف نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے اختیارات کے غلط استعمال ، مس کنڈکٹ اور منصب کے منافی بعض الزامات کے تحت انہیں ان کے عہدے سے مستعفی ہونے کا حکم دیا تھا تاہم ان کے انکار کے بعد صدر پرویز مشرف نے انہیں ان کے عہدے پر کام کرنے سے روک دیا تھا اور ان کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کیا تھا جس نے 20 جولائی 2007ء کو جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کردیا تھا۔ مگر اس بحالی کے باوجود صدر پرویز مشرف سے ان کے تعلقات میں خلیج حائل رہی اور وہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے دیتے رہے جس کے نتیجے میں 3 نومبر 2007ء کو صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرکے جسٹس محمد افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے فارغ کردیا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا پاکستان کا نیا چیف جسٹس مقرر کردیا۔ 2008ء میں ملک میں جمہوری عمل کا آغاز ہوا تو عوام کو توقع تھی کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اب واپس اپنے عہدے پر بحال ہوجائیں گے۔ حکومت نے کئی مرتبہ ان کی بحالی کا وعدہ بھی کیا مگر اس وعدے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا جس کے نتیجے میں جون 2008ء میں وکلا نے چیف جسٹس کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کیا۔ 11 مارچ 2009ء کو ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی احمد کرد کی زیر قیادت سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے برطرف کئے گئے ججوں کی بحالی کے لئے لانگ مارچ کا سلسلہ شروع ہوا۔ حکومت نے اس لانگ مارچ کو اسلام آباد کی طرف جانے سے روکنے کے لئے بھرپور اقدامات کئے تھے اور اسلام آباد کوکنٹینروں کا شہر بنادیاتھا مگر لانگ مارچ کے شرکا نے بھی ہمت نہیں ہاری اور عوام کا سمندر رکاوٹیں توڑ کر اسلام آبادروانہ ہوگیا۔ عوام کا یہ لانگ مارچ کامیابی سے ہمکنار ہوا اور16 مارچ 2009ء کی صبح5 بجکر 50منٹ پر وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججوں کو بحال کرنے کا اعلان کردیا۔ اگلے روز 17 مارچ کو صدر آصف علی زرداری نے جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے 11 معزول ججوں کو ان کے عہدوں پر بحال کرنے کے نوٹیفکیشن پر دستخط کردیئے جس میں کہا گیا تھا کہ ان تمام معزول ججوں کو 3 نومبر 2007ء سے پہلے کی سنیارٹی پر بحال کردیا گیا ہے۔ اس نوٹیفکیشن کے مطابق جسٹس افتخار محمد چوہدری سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی21 مارچ کو ریٹائرمنٹ کے بعد22 مارچ سے اپنا منصب دوبارہ سنبھالیں گے جبکہ دیگر 10 جج فوری طور پر بحال تصور کئے جائیں گے۔ ان 10 ججوں میں سپریم کورٹ کے جسٹس جاوید اقبال، جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جسٹس راجہ فیاض احمد اور جسٹس چوہدری اعجاز احمد، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مقبول باقر، جسٹس مشیر عالم، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خواجہ شریف، جسٹس اعجاز احمد چوہدری اور جسٹس اقبال حمید الرحمن اور پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس افضل خان شامل تھے۔  
UP