> <

1111-12-19
7012 Views
امام غزالی ٭19دسمبر 1111ء عالم اسلام کے عظیم فلسفی امام غزالی کی تاریخ وفات ہے۔ امام غزالی کا پورا نام ابو حامد محمد الغزالی تھا اور وہ 1059ء میں خراسان کے قریب طوس کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم طوس میں حاصل کی اور پھر نیشاپور آگئے جہاں انہوں نے امام الحرمین ابوالمعالی سے ظاہری اور باطنی علم کی تکمیل کی۔ استاد کی وفات کے بعد نظام الملک طوسی کے پاس پہنچے جنہوں نے انہیں اپنے قائم کردہ مدرسہ بغداد میں صدر مدرس مقرر کردیا۔ امام غزالی نے کچھ عرصے درس وتدریس کے فرائض انجام دیئے اور پھر فلسفے اور مذہب کے گہرے مطالعے میں مصروف ہوگئے۔ اس مطالعے نے انہیں اس نتیجے پر پہنچایا کہ فلسفہ اور مذہب دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں چنانچہ انہوں نے معاصر فلسفیوں اور قدیم فلسفوں کو چیلنج کیا اور بڑی شدومد کے ساتھ فلسفیانہ نظریات و عقائد کی مخالفت اور اسلام کی حمایت کی ، اسی وجہ سے انہیں حجتہ الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔امام غزالی کی تصانیف میں احیائے علوم دین، تہافت الفلاسفہ اور مقاصد الفلاسفہ کے نام سرفہرست ہیں۔  
1238-10-09
7785 Views
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ٭ برصغیر پاک و ہند کے عظیم بزرگ سلطان المشائخ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء27صفر المظفر 636ہجری بمطابق  9اکتوبر 1238ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا اصل نام محمد تھا اور آپ کاسلسلہ نسب حضرت علی تک پہنچتا ہے۔ مولانا علاء الدین اصولی سے قرآن پاک پڑھا اور مزید تعلیم کی حصول کے لیے دہلی پہنچے جہاں آپ نے مولانا شمس الدین وامغانی، مولانا کمال الدین اور مختلف مشاہیر سے مختلف علوم کی تحصیل کی ۔ 20 برس کی عمر میں آپ بابا فرید گنج شکرؒ کی خدمت میں پاکپتن پہنچے جنہوں نے آپ کو اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ بابا صاحب نے آپ کو جو نصائح اور ہدایات فرمائیں ان کی تفصیل آپ کی تصنیف راحت القلوب میں درج ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے مریدین میں حضرت امیرخسرو کا نام سرفہرست ہے ۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کی تاریخ وصال 4 مارچ 1325ء مطابق 18 ربیع الاول 725 ہجری ہے۔ آپ کا مزار دہلی میں ہے، جہاں ہر سال لاکھوں زائرین حاضری دیتے ہیں۔ آپ سلسلہ نظامیہ کے بانی ہیں جو سلسلہ چشتیہ کی ایک شاخ ہے۔ آپ کی تصانیف میں فوائد الفواد، فصل الفواد، راحت المحبین اور سیر الاولیا کے نام سرفہرست ہیں۔
1325-03-04
7785 Views
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ٭ برصغیر پاک و ہند کے عظیم بزرگ سلطان المشائخ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء27صفر المظفر 636ہجری بمطابق  9اکتوبر 1238ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا اصل نام محمد تھا اور آپ کاسلسلہ نسب حضرت علی تک پہنچتا ہے۔ مولانا علاء الدین اصولی سے قرآن پاک پڑھا اور مزید تعلیم کی حصول کے لیے دہلی پہنچے جہاں آپ نے مولانا شمس الدین وامغانی، مولانا کمال الدین اور مختلف مشاہیر سے مختلف علوم کی تحصیل کی ۔ 20 برس کی عمر میں آپ بابا فرید گنج شکرؒ کی خدمت میں پاکپتن پہنچے جنہوں نے آپ کو اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ بابا صاحب نے آپ کو جو نصائح اور ہدایات فرمائیں ان کی تفصیل آپ کی تصنیف راحت القلوب میں درج ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے مریدین میں حضرت امیرخسرو کا نام سرفہرست ہے ۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کی تاریخ وصال 4 مارچ 1325ء مطابق 18 ربیع الاول 725 ہجری ہے۔ آپ کا مزار دہلی میں ہے، جہاں ہر سال لاکھوں زائرین حاضری دیتے ہیں۔ آپ سلسلہ نظامیہ کے بانی ہیں جو سلسلہ چشتیہ کی ایک شاخ ہے۔ آپ کی تصانیف میں فوائد الفواد، فصل الفواد، راحت المحبین اور سیر الاولیا کے نام سرفہرست ہیں۔
1892-10-05
10635 Views
علامہ ظفر احمد عثمانی ٭ پاکستان کے ایک نامور عالم دین اور جدوجہد آزادی کے فعال رہنما علامہ ظفر احمد عثمانی 5 اکتوبر 1892ء کو دیوبند میں پیدا ہوئے تھے۔  آپ نے ابتدائی تعلیم دیوبند سے حاصل کی اور پھر تھانہ بھون‘ کانپور اور سہارنپور میں مختلف علماء سے فیض یاب ہوئے۔ تحریک پاکستان کی آخری دہائی میں مولانا ظفر احمد عثمانی مشرقی بنگال میں درس و تدریس میں مصروف تھے یوں انہوں نے ہندوستان کے اس خطے میں تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا جب سلہٹ میں ریفرنڈم کا مرحلہ درپیش ہوا تو یہ مولانا ظفر احمد عثمانی ہی تھے جن کی کاوشوں سے مسلم لیگ نے اس ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کی اور یوں قیام پاکستان کے وقت یہ خطہ‘ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ یہ آپ کی اور آپ کے بھائی علامہ شبیر احمد عثمانی کی خدمات ہی تھیں جن کے باعث قیام پاکستان کے وقت‘ یعنی 14 اگست 1947ء کو قائد اعظم نے آپ دونوں بھائیوں کو بالترتیب ڈھاکا اور کراچی میں پرچم کشائی کا اعزاز بخشا۔ 1954ء میں مولانا ظفر احمد عثمانی ٹنڈو الہ یار چلے آئے‘ جہاں انہوں نے ایک مدرسۃ العلوم قائم کیا اور آخری وقت تک اسی مدرسے میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی کا انتقال 8 دسمبر 1974ء کو ہوا۔ وہ ٹنڈوالٰہ یار میں اپنے قائم کردہ مدرسے میں آسودۂ خاک ہوئے۔ آپ کی تصانیف میں تحذیر المسلمین عنن الموالات المشرکین‘ فتاویٰ امداد الاحکام‘ اعلاء السنن اور انوار النظر فی آثار الظفر سرفہرست ہیں۔
1892-12-23
14971 Views
سید عطاء اللہ شاہ بخاری سید عطاء اللہ شاہ بخاری 23 دسمبر 1892ء کو اپنی ننھیال پٹنہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد امرتسر آگئے جہاں مفتی غلام مصطفی قاسمی سے صرف ونحو اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ 1915ء میں پیر سید مہر علی شاہ آف گولڑہ شریف کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پہلے تحریک خلافت کے مخالف تھے مگر پھر سید دائود غزنوی کے دلائل سے قائل ہوکر اس تحریک کے حامی بن گئے جس میںان کی خطابت نے جان ڈال دی۔ 1921ء میں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ مارچ 1930ء میں لاہور میں ایک جلسے میں علامہ سید انور شاہ کاشمیری نے انہیں ’’امیر شریعت‘‘ کا خطاب دیا اور آپ کے ہاتھ پر ہزاروں افراد کے ہمراہ بیعت جہاد کی۔ آپ نے تحفظ ختم نبوت کی تحریک میں بھی فعال حصہ لیا۔ 1931ء میں ’’مجلس احرار الاسلام‘‘ قائم ہوئی تو اس میں شامل ہوگئے۔ سید عطا اللہ شاہ بخاری، تحریک پاکستان کے مخالفین میں شامل تھے مگر قیام پاکستان کے بعد انہوں نے یہ مخالفت ترک کردی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری ملتان میں قبرستان جلال باقری، باغ لنگے خان میں آسودۂ خاک ہیں۔ آپ شاعری میں ندیم تخلص کرتے تھے اور آپ کا مجموعہ کلام ’’سواطع الالہام‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ 21 اگست 1961ء کو سید عطاء اللہ شاہ بخاری وفات پاگئے اور ملتان میں آسودئہ خاک ہوئے۔      
1908-02-09
5637 Views
ڈاکٹر محمد حمید اللہ ٭ عالم اسلام کے عظیم اسکالر  ڈاکٹر محمد حمید اللہ 9 فروری 1908ء کو حیدرآباد (دکن) کے ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے مدرسہ نظامیہ سے مولوی کامل اور جامعہ عثمانیہ سے بی اے، ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کئے اور 1932ء میں جرمنی کی بون یونیورسٹی سے ڈی فل کیا۔ ان کی اعلیٰ قابلیت کے باعث انہیں بون یونیورسٹی میں لیکچرر مقرر کیا گیا۔ بعدازاں وہ پیرس آگئے جہاں انہوں نے ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ سات دہائیوں تک علم کی روشنی پھیلاتے رہے۔ وہ متعدد علمی اداروں سے وابستہ رہے۔ انہوں نے سات زبانوں میں سو سے زیادہ کتابیں اور ایک ہزار سے زیاہ مضامین تحریر کئے۔ وہ 22 زبانیں جانتے تھے۔ وہ قرارداد مقاصد کی منظوری کے وقت پاکستان آئے اور اس وقت حکومت پاکستان نے ان سے اہم مشورت اور معاونت حاصل کی۔ انہوں نے جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں بارہ لیکچر بھی دیئے جو خطبات بہاولپور کے نام سے مشہور ہوئے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے قرآن پاک کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا اور فقہ حدیث اور سیرت النبیؐ کے مختلف پہلوئوں پر لاتعداد کتابیں تحریر کیں۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ صحیفہ ہمام ابن منبہ کی تدوین ہے۔ 101ھ میں تحریر کردہ اس کتاب کی مختلف جلدیں دنیا کے مختلف ممالک کے کتب خانوں میں محفوظ تو تھیں مگر کوئی انہیں یکجا کرنے والا نہ تھا۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے انہیں مدون کرکے شائع کیا۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تحریروں کی بدولت امریکا، یورپ اور افریقہ میں اسلام بھی بڑی سرعت سے پھیلا اور صرف فرانس میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو ہلال امتیاز کا اعزاز عطا کرکے اپنے اس اعزاز کی قدر و قیمت میں اضافہ کیا تھا۔ 17 دسمبر 2002ء کو ڈاکٹر محمد حمید اللہ جیکسن ولے، فلوریڈا امریکا میں وفات پاگئے جہاں وہ علاج کی غرض سے مقیم تھے۔ 
1908-12-04
9207 Views
غازی علم دین شہید ٭4 دسمبر 1908ء مشہور شہید ناموس رسالت غازی علم دین کی تاریخ پیدائش ہے۔ 1928ء میں لاہور کے ایک کتب فروش راج پال نے رسول اکرمؐ کی ذات بابرکات کے متعلق ایک نازیبا کتاب شائع کی تھی جس کا نام ہی ایک مسلمان کا خون کھولانے کے لیے کافی تھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد مسلمانوں نے ہندوستان بھر میں راج پال کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ راج پال گرفتار تو ہوا لیکن قانونی سقم کی وجہ سے رہا ہوگیا۔ 6 اپریل 1929ء کو لاہور کے نوجوان علم دین ، راج پال کی دکان پر پہنچے اورنہایت سکون سے اسے واصل جنم کرکے خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردیا۔ غازی علم دین پر راج پال کے قتل کے الزام میں مقدمہ چلا اور ہائی کورٹ نے انہیں موت کی سزا سنادی۔ 31 اکتوبر 1929ء کو میانوالی جیل ان کی سزائے موت کے حکم پر عمل درامد ہوگیا۔6 نومبر 1929ء کو انہیں لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔ جہاں ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔      
1926-03-31
11400 Views
مولانا شاہ احمد نورانی ٭ عالم دین، مبلغ اسلام اور سیاسی رہنما مولانا شاہ احمد نورانی 31 مارچ 1926ء کو میرٹھ (یو پی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی، اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خان بریلوی کے خلیفہ مجاز تھے۔ شاہ احمد نورانی نے حفظ قرآن اور درس نظامی کی تکمیل کے بعد نیشنل عربک کالج میرٹھ سے گریجویشن کیا اور الٰہ آباد یونیورسٹی سے فاضل عربی کی ڈگری حاصل کی۔ علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی اپنے وقت کے عظیم مبلغ تھے۔ ان کی وفات کے بعد یہ فریضہ شاہ احمد نورانی نے سنبھال لیا۔ وہ 1953ء سے 1964ء تک ورلڈ مسلم علما آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل رہے۔ انہوں نے 1953ء اور 1974ء کی ختم نبوت تحریک میں فعال حصہ لیا۔ 1970ء میں وہ جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2003ء میں وہ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر سینٹ آف پاکستان کے رکن بنے تھے اور اپنی وفات کے وقت بھی سینٹ کے رکن تھے۔ ٭11 دسمبر 2003ء کو مولانا شاہ احمد نورانی اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ مولانا شاہ احمد نورانی کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔
1929-10-31
9207 Views
غازی علم دین شہید ٭4 دسمبر 1908ء مشہور شہید ناموس رسالت غازی علم دین کی تاریخ پیدائش ہے۔ 1928ء میں لاہور کے ایک کتب فروش راج پال نے رسول اکرمؐ کی ذات بابرکات کے متعلق ایک نازیبا کتاب شائع کی تھی جس کا نام ہی ایک مسلمان کا خون کھولانے کے لیے کافی تھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد مسلمانوں نے ہندوستان بھر میں راج پال کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ راج پال گرفتار تو ہوا لیکن قانونی سقم کی وجہ سے رہا ہوگیا۔ 6 اپریل 1929ء کو لاہور کے نوجوان علم دین ، راج پال کی دکان پر پہنچے اورنہایت سکون سے اسے واصل جنم کرکے خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردیا۔ غازی علم دین پر راج پال کے قتل کے الزام میں مقدمہ چلا اور ہائی کورٹ نے انہیں موت کی سزا سنادی۔ 31 اکتوبر 1929ء کو میانوالی جیل ان کی سزائے موت کے حکم پر عمل درامد ہوگیا۔6 نومبر 1929ء کو انہیں لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔ جہاں ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔      
1931-02-15
5001 Views
علامہ نصیر الاجتہادی ٭15 فروری 1931ء پاکستان کے نامور عالم دین، خطیب اور مصنف علامہ نصیرالاجتہادی کی تاریخ پیدائش ہے۔ علامہ نصیر الاجتہادی کا اصل نام سید نصیر حسین رضوی تھااور وہ لکھنؤ میں برصغیر کے ممتاز علمی گھرانے خاندان اجتہاد میں پیدا ہوئے تھے۔  آپ کے جد علامہ سید احمد کو آیت اللہ العظمی اور مرجع وقت اخوند کاظم نے علامہ ہندی کے خطاب سے سرفراز کیا تھا۔ علامہ نصیرالاجتہادی کی پرورش بڑے علمی ماحول میں ہوئی۔ آپ مدرسۂ ناظمیہ لکھنؤ کے فارغ التحصیل تھے اور آپ نے مفتی اعظم ہند مفتی احمد علی، مولانا ایوب، مولانا ناظم حسین اور علامہ مرتضیٰ حسنین سے بھی فیض حاصل کیاتھا۔ علامہ نصیر الاجتہادی اتحاد بین المسلمین کے زبردست داعی تھے۔ آپ نے عربی کی کئی کتابوں کو اردو میں منتقل کیا جن میں نہج الفصاحت اور کتاب کربلا کے نام سرفہرست ہیں۔ آپ نے پاکستان ٹیلی وژن سے کئی برس تک مجالس سے شام غریباں سے خطاب کیا۔ 3 فروری 1990ء کو علامہ نصیرالاجتہادی کراچی میں وفات پا گئے اور کراچی ہی میں مسجد زین العابدین، بفرزون کے احاطہ میں آسودۂ خاک ہوئے۔  
UP