1950-07-21

ترچ میر کی چوٹی ٭21 جولائی 1950ء کو ناروے کے کوہ پیمائوں کی ایک ٹیم نے کوہ ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ترچ میر کو سر کرلیا۔ چار کوہ پیمائوں پر مشتمل اس ٹیم کے سربراہ ناروے کے کوہ پیما آرنے نائس (Arne Naess)تھے جب کہ اس ٹیم کے دیگر کوہ پیمائوں میں کیون برگ اور ایچ برگ کے علاوہ ایک پاکستانی کوہ پیماپروفیسر مرزا حمید بیگ بھی شامل تھے۔ ترچ میر کے ان فاتحین نے ترچ میر کی چوٹی پر اقوام متحدہ، ناروے اور پاکستان کے پرچم لہرائے۔ ترچ میر کی چوٹی کی بلندی 25288 فٹ یا 7706 میٹر ہے۔ یہ پاکستان کی سولہویں اور دنیا کی اکتالیسویں بلند ترین چوٹی ہے۔
1954-07-31

کے ٹو کی چوٹی ٭31 جولائی 1954ء کو اٹلی کے دو کوہ پیمائوں کیمپگ نونی اور لیس ڈیلی نے دنیا کی دوسری اور پاکستان کی سب سے بلند چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ کے ٹو کو مقامی زبان میں چھگوری یعنی پہاڑوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ 1856 میں کیپٹن منٹگمری نے اسے کے ٹو کا نام دیا۔ 1861ء میں سروے ڈپارٹمنٹ کے کیپٹن گڈون آسٹن نے اس چوٹی کی بلندی معلوم کی جس کی وجہ سے یہ چوٹی اس کے نام سے موسوم ہوکر مائونٹ گڈون آسٹن کہلانے لگی تاہم اس کا مشہور اور مقبول نام کے ٹو ہی رہا۔بیسویں صدی کے اوائل میں کے ٹو کی چوٹی سر کرنے کے لیے مہمات بھیجے جانے کا آغاز ہوا تاہم کئی قیمتی جانیں ضائع ہونے کے بعد بھی کوئی مہم جو اسے سر کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ 1954ء میں پروفیسر دے سیو کی قیادت میں 15کوہ پیمائوں کی ایک ٹیم نے کے ٹو کو سر کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس ٹیم میں پاکستانی کرنل عطاء اللہ‘ میجر بشیر‘ کیپٹن بٹ اور انجینئر منیر بھی شامل تھے۔ 31 جولائی 1954ء کو اس ٹیم کے دو ارکان کیمپگ نونی اور لیس ڈیلی پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گئے اور یوں انسانی عزم اور ہمت نے دنیا کی اس مشکل ترین چوٹی کو بھی سر کرلیا۔ اس واقعے کے 50 سال بعد 14 اگست 2004ء کو حکومت پاکستان نے لیس ڈیلی کو ستارۂ امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا۔
1977-08-09

اشرف امان ٭9 اگست 1977ء کو پاکستان کے مشہور کوہ پیما اشرف امان نے دنیا کی دوسری اور پاکستان کی بلند ترین پہاڑی چوٹی کے ٹو پر قدم رکھنے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی کوہ پیما تھے۔ اشرف امان اس سے قبل نانگا پربت اور ترچمیر کی چوٹیاں سر کرنے کی کوشش کرچکے تھے مگرکامیاب نہیں ہوسکے تھے۔ 1977ء میں انہوں نے جاپان کے کوہ پیما اشیروذوشی زادہ کے ساتھ کے ٹو کی چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ 14اگست1982ء کو حکومت پاکستان نے ان کی کارکردگی کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دیئے جانے کا اعلان کیا تھا۔
2000-05-17

نذیر صابر، کوہ پیما ٭17مئی 2000ء بروز بدھ نیپال کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے پاکستان کے معروف کوہ پیما نذیر صابر نے دنیا کی بلند ترین چوٹی مائونٹ ایورسٹ سر کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ نذیر صابر نے اپنے اس تاریخی سفر کا آغاز 20 مارچ 2000ء کو نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے کیا تھا۔ 7 مئی 2000ء کو وہ 7950 فٹ کی بلندی پر پہنچ کر موسم کی خرابی کے باعث واپس آگئے۔ دوسری مرتبہ 15مئی 2000ء کو 8750 فٹ کی بلندی تک پہنچے مگر پھر موسم کی خرابی کے باعث نیچے آگئے۔ دو مرتبہ موت کے منہ سے بچ نکلنے کے باوجود نذیر صابر نے ہمت نہ ہاری اور 17 مئی 2000ء کو دنیا کی اس بلند ترین چوٹی پر پاکستان کا پرچم لہرا دیا۔ انہوں نے پرچم لہرانے سے قبل خدا کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا اور وہاں پاکستان کا قومی ترانہ بھی گایا۔ نذیر صابر مائونٹ ایورسٹ سر کرنے والے دنیا کے 899 ویں کوہ پیما تھے۔ حکومت پاکستان نے نذیر صابر کوصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا ہے۔