1978-03-23

مولوی حاجی احمد ملاح فارسی، عربی، اردو، سرائیکی اورسندھی زبان کے معروف عالم مولوی حاجی احمد ملاح 11 فروری 1877ء کو گوٹھ کنڈی ضلع بدین میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے بدین میں مدرسہ مظہر العلوم قائم کیا اور قران پاک کا منظوم سندھی ترجمہ کیا جس کا نام نورالقران ہے۔ مولوی حاجی احمد ملاح کا انتقال 19 جولائی 1969 کو بدین میں ہوا۔ ان کی وفات کے نو برس بعد 23 مارچ 1978 ء کو انہیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ 1981 ء میں انھیں جنرل محمد ضیا الحق نے قرانی علوم کی اشاعت کے حوالے سے صدارتی اعزاز عطا کیا۔ مولوی حاجی احمد ملاح گوٹھ کنڈی ضلع بدین میں آسودہ خاک ہیں ۔
1990-08-14

بشپ انتھونی تھیوڈور لوبو معروف مذہبی رہنما اور ماہر تعلیم بشپ انتھونی تھیوڈور لوبو 4 جولائی 1937ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے سینٹ پیٹرکس اسکول کراچی اور کرائسٹ دی کنگ سے تعلیم حاصل کی۔ 8 جنوری 1961ء کو انھیں کراچی کا پریسٹ مقرر کیا گیا۔ بعد ازاں انھوں نے جامعہ کراچی ، ہارورڈ اور پیرس سے مزید تعلیم حاصل کی۔ بشپ انتھونی تھیوڈور لوبو نے پاکستا ن کے نظام تعلیم کی بہتری کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ وہ کئی تعلیمی اداروں کے سربراہ بھی رہے جن میں کراچی کا سینٹ لارنس بوائز اسکول، سینٹ پیٹرکس اسکول اورسینٹ مائیکل کانونٹ اسکول شامل ہیں۔ 1993ء میں انھیں اسلام آباد کا بشپ مقرر کیا گیا۔ 18 فروری 2013 کو ان کا انتقال ہوگیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں14 اگست 1990ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
1997-08-14

زبیدہ جلال پاکستان کی ممتاز ماہر تعلیم اور سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال 31 اگست 1959ء کو کیچ کے مقام پر ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ بلوچستان یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کیا۔ انھوں نے اپنے گائوں کی بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ایک اسکول کھولا جسے بہت سراہا گیا اور بعد ازاں ان کا یہی قدم انہیں تعلیم کی وفاقی وزارت تک لے گیا۔ حکومت پاکستان نے 14 اگست 1997ء کوانہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ 4 نومبر 1999ء کو جب جنرل پرویز مشرف نے اپنی پہلی کابینہ کے ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تو زبیدہ جلال کو تعلیم اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے قلم دان سونپے گئے۔ 2002ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور میر ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز کی کابیناؤں میں وزیر تعلیم کے منصب پر فائز ہوئیں۔ 2008ء کے عام انتخابات میں وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔
1999-08-14

پروفیسر انیتا غلام علی ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم پروفیسر انیتا غلام علی 2 اکتوبر 1934ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں ان کے والد کا نام جسٹس فیروز نانا تھا۔ ابتدائی تعلیم سینٹ جوزف کانونٹ اسکول ’’پنج گنی‘‘ (مہاراشٹر، بھارت) اور سینٹ لارنس کانونٹ اسکول، کراچی سے حاصل کی۔ 1957ء میں ڈی جے سائنس کالج سے بی ایس سی اور 1960ء میں کراچی یونی ورسٹی سے ایم ایس سی (مائیکرو بیالوجی) سیکنڈ پوزیشن سے کیا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ نہ صرف مختلف طلبہ تنظیموں سے منسلک رہیں، بلکہ کالج اور یونی ورسٹی کی ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن اور نیٹ بال ٹیموں کی چیمپئن بھی رہیں۔ اس کے علاوہ انیتاغلام علی 1955 میں ٹوکیو میں ہونے والے ورلڈ یونی ورسٹی سروس سیمینار میں پاکستانی طلبہ کے وفد کی نمائندگی کرنے والی واحد ایشیائی طالبہ تھیں۔ پروفیسر انیتا غلام علی 1953 میں آواز کی دنیا میں داخل ہوئیں، ریڈیو اسٹیشن جاکر آڈیشن دیا، پاس ہوئیں اور نیوز کاسٹر کی حیثیت سے ریڈیو سے منسلک ہوئیں۔ 1960ء سے 1972ء تک ریڈیو پاکستان سے انگریزی میں قومی خبریں پڑھتی رہیں۔ پروفیسر انیتا غلام علی نے عملی زندگی کا آغاز 1961 سے سندھ مسلم سائنس کالج میں درس و تدریس سے کیا اور ساتھ ہی 1961 سے 1983 تک پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن سے سرگرم کارکن، نائب صدر اور صدر کی حیثیت سے بھی منسلک رہیں۔ وہ کالجوں کو قومیائے جانے کی تحریک کا حصہ بھی رہیں۔ 1980 میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میں پاکستانی وفد کی ڈپٹی لیڈر تھیں۔ انیتا غلام علی کو دو مرتبہ سندھ کی وزیر تعلیم رہنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ نگراں حکومت میں تعلیم و ثقافت، سائنس و ٹیکنالوجی، نوجوان اور کھیل کی صوبائی وزیر رہیں۔ انیتا غلام علی کو لازمی پرائمری تعلیم کے سلسلے میں 2000 میں سینیگال میں منعقدہ ڈکار کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی اور اس کی دستاویزات پر دستخط کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ وہ سندھ کی سابق وزیر تعلیم کے علاوہ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی بانی منیجنگ ڈائریکٹر بھی تھیں۔ پروفیسر انیتا غلام علی تعلیم کے میدان میں گراں قدر کارہائے نمایاں انجام دینے کے بعد 8 اگست 2014ء کو خالق حقیقی سے جا ملیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 1999ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
2001-08-14

دینا مستری پاکستان کی مشہور ماہر تعلیم اور پاکستان کے معروف آرکیٹیکٹ مینو مستری کی اہلیہ دینا مستری 27 فروری 1924ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ وہ 60 برس تک کراچی کے مشہور تعلیمی ادارے بی وی ایس پارسی اسکول سے وابستہ رہیں، جہاں انہوں نے پرنسپل کے فرائض بھی انجام دیئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کراچی کے کئی تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دیں۔ تعلیمی شعبے میں دینا مستری کی خدمات کے اعتراف میں 14 اگست 2001ء کوحکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ان کا انتقال 27 جنوری 2011ء کو کراچی میں ہوا۔
2003-08-14

ڈاکٹر نجمہ نجم پاکستان کی معروف ماہر تعلیم ڈکٹر نجمہ نجم نے باولنگ گرین اسٹیٹ یونیورسٹی سے فلبرائٹ اسکالر شپ پرنیوروسائنسز کے شعبے میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ وہ تدریس کے شعبہ میں 40 سال کا تجربہ رکھتی ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی پہلی خواتین یونیورسٹی فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، راولپنڈی کی پہلی وائس چانسلر ہونے کا اعزاز حاصل کیا بعد ازاں انہوں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، گلگت میں بھی وائس چانسلر کے فرائض انجام دئیے۔ ۔ حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2003ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
2011-08-14

محمدعظمت جاپان سے تعلق رکھنے والے ماہر ثقافت محمد عظمت کا اصل نام شیکی یوکی اتاکا ہے اور وہ 18 اگست 1945ء کو اوساکا میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے عملی زندگی کا آغاز اوساکا پیٹرولیم ایسوسی ایشن سے کیا۔ ساتھ وائی ایم سی اے، اوساکا سے انگریزی سیکھنی شروع کی اور وہیں وہ امکانات پیدا ہوئے، جو اْنھیں پاکستان لے آئے ۔ وائی ایم سی اے میں ایک روز اْن کی ملاقات اردو کے ممتاز اسکالر، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی سے ہوئی، جو وہاں انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ اْن کی شخصیت نے اتاکا صاحب کو بہت متاثر کیا، اور وہ ان کے گھر جا کر انگریزی کی کلاسیں لینے لگے۔ 1973میں کشفی صاحب پاکستان لوٹ گئے، تاہم لوٹنے سے قبل اپنے طالب علم کے دل میں پاکستان آنے کی خواہش چھوڑ گئے۔ 1977 میں وہ پاکستان آگئے اورجامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات میں داخلہ لے لیا، جہاں سے 1980 میں ایم اے کیا۔ اردو زبان نہیں جانتے تھے، اس لیے ابتدا میں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد اسلام میں دل چسپی نے مطالعے کی تحریک دی۔ قران پاک کا انگریزی ترجمہ پڑھا۔ دیگر کتب سے استفادہ کیا۔ ذہن سازی میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ 1981ء میں اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے استاد اور محسن، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے ہاتھ پر اْنھوں نے اسلام قبول کیا۔ 1984 میں وہ ابوالخیر کشفی صاحب کی بھانجی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ اْسی زمانے میں جاپان کلچرل سینٹر، کراچی میں ملازمت کی پیش کش ہوئی۔ جاپان قونصلیٹ کے اس ذیلی ادارے سے وہ 1997ء تک وابستہ رہے۔ اگلے آٹھ برس قونصل جنرل کے مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 2005ء میں ہمدرد یونیورسٹی سے بہ طور سیکریٹری، اسٹوڈنٹس/ایکسٹرنل افیئر منسلک ہوگئے۔ محمد عظمت نے جاپان اور پاکستان کے ثقافتی رشتے کے استحکام کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ جاپانی شاعری کی مقبول ترین صنف، ہائیکو کی اردو میں قبولیت اور مقبولیت میں یوں تو کئی اہل علم نے اپنا حصہ ڈالا، مگر اصل سہرا عظمت اتاکا کے سر ہے، جنھوں نے1983ء میں جاپان کلچرل سینٹر کے تحت ہائیکو مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا، جو ہنوز جاری ہے۔ ان ہی مشاعروں نے ہائیکو کو اردو داں طبقے میں متعارف کروایا۔ آنے والے برسوں میں کئی قدآور شعرا کے ہائیکو کے مجموعے شائع ہوئے اور اِس صنف پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 14 اگست 2011ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
2013-08-14

گروپ کیپٹن(ر) سیسل چودھری معروف ماہر تعلیم اور پاک فضائیہ کے ریٹائرڈ افسر سیسل چودھری 27 اگست 1941ء کولاہورمیں پیدا ہوئے۔ وہ معروف صحافی فوٹو گرافر ایف ای چودھری کے بیٹے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ انتھونی سکول لاہور سے حاصل کی اور ایف سی کالج لاہور سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے مارچ 1958ء میں پاکستان فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔ سیسل چودھری نے پینسٹھ اور اکہتر کی پاک بھارت جنگوں میں حصہ لیا۔ انہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور بھارتی ٹھکانوں کا نشانہ بنایا۔ اور 1971ء کی جنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ سیسل چودھری نے 1986ء میں پاک فضائیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ تعلیم سے وابستگی اختیار کی اورکئی برس تک سینٹ انتھونی سکول کے پرنسپل کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ بعد میں وہ سینٹ میری اکیڈمی راولپنڈی کے پرنسپل بن گئے۔ سیسل چودھری نے پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کے ڈائریکٹر کے حیثیت سے بھی کام کیا۔ انہوں نے تعلیم کے شعبہ کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔ وہ قومی کمیشن برائے انصاف اور امن کے بھی منسلک رہے اور اقلیتوں کے لیے مخلوط طریقہ انتخابات کی بحالی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے 13 اپریل 2012ء کو وفات پائی۔ حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ جرات اور تمغہ جرات کے اعزازات اور14 اگست 2013ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
2015-08-14

نور الدین بھامانی معروف سماجی کارکن نور الدین بھامانی 1962ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے پی ڈبلیو ڈی ( پرسن ود ڈس ایبیلیٹی) ونگ کے سربراہ تھے، وہ خود DYSTROPHY MUSCULAR نامی لاعلاج مرض میں مبتلا تھے لیکن تمام زندگی معذور افراد کی بہبود کے لیے کوشاں رہے۔ وہ اپنے احباب میں منا بھائی کی عرفیت سے مشہور تھے۔ نور الدین بھامانی مئی 2015ء میں وفات پاگئے۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 14 اگست 2015ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا ہے ۔