1980-08-14

محمد قوی خان پاکستان کے مشہور اداکار محمد قوی خان 15 نومبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے ہوا۔ 1964 ء میں جب لاہور میں پاکستان ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو انہیں اس کے پہلے ڈرامے میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے لاتعداد سیریلز، سیریز اور انفرادی ڈراموں میں کام کیا جن میں اندھیرا اجالا، لاہوری گیٹ، دو قدم دور تھے، مٹھی بھر مٹی، من چلے، میرے قاتل مرے دلدار، پھر چاند پہ دستک، در شہوار، بیٹیاں، داستان، ایک نئی سنڈریلا اور ڈاکٹر دعاگو کے نام سرفہرست ہیں۔ وہ پاکستان ٹیلی وژن کی پہلے اداکار تھے جنہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انھیں 14 اگست 1980ء کو ملا۔ بعد ازاں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی سرفراز کیا گیا۔ محمد قوی خان پی ٹی وی ایوارڈ اور ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وڑن کے لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ انھوںنے کئی فلموں میں بھی کام کیا اور تین نگار ایوارڈز بھی حاصل کیے۔
1982-08-14

طلعت حسین تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم کے نام ور فنکار طلعت حسین 1945ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ 1947ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا۔ طلعت حسین کی والدہ شائستہ بیگم ریڈیو پاکستان سے بطور اناونسر وابستہ تھیں۔ طلعت حسین نے اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا۔ 1967 میں جب کراچی سے ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو وہ ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے لگے۔ 1972ء میں ڈرامے کی اعلیٰ تربیت کے حصول کے لیے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے کئی اسٹیج ڈراموں اور بی بی سی میں بھی کام کیا۔ طلعت حسین کو کئی غیر ملکی ٹی وی سیریلز اور فلموں میں کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انھوں نے کئی پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا جن میں ’’انسان اور آدمی‘‘ کا نام سر فہرست ہے۔ اس فلم میں انھوں نے فاروق جلال کے نام سے کام کیا تھا۔ 14 اگست 1982ء کو حکومت پاکستان نے طلعت حسین کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
1985-08-14

محمود علی ریڈیو، ٹیلی وژن، اسٹیج اور فلموں کے معروف فن کار اداکار محمود علی 1928ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1945ء میں آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ 1950ء میں وہ بطور اسٹاف آرٹسٹ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔ ریڈیو پاکستان پر ان کا پہلا ڈرامہ ’’اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا‘‘ تھا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان کی مشہور ڈرامہ سیریز ’’حامد میاں کے ہاں‘‘ میں 50 سال تک اپنی آواز کا جادو جگایا۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں خدا کی بستی، لیلیٰ مجنوں، تعبیر، شہزوری، زیر زبر پیش، انا، کرن کہانی، آنچ، افشاں، دشت آشنا اور یہ محبتیں کیسی کے نام سرفہرست ہیں۔ وہ اسٹیج ڈراموں کے بھی معروف فنکار تھے اور خواجہ معین الدین کی مشہور اسٹیج ٹیم سے وابستہ تھے۔ ان کے مشہور اسٹیج ڈراموں میں وادیٔ کشمیر، مرزا غالب بندر روڈ پر، لال قلعے سے لالو کھیت اور تعلیم بالغاں کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں بھی اداکاری کی جن میں بنجارن، لوری، ایسا بھی ہوتا ہے، پردے میں رہنے دو، انسان اور گدھا اور آگ کے نام سرفہرست تھے۔ 14 اگست 1985ء کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ محمود علی 11جولائی 2008ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں وادیٔ حسین کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
1985-08-14

عابد علی فلم اور ٹیلی وژن کے معروف اداکاراور ہدایت کار عابد علی 17 مارچ 1952 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ زمانہ طالب علمی میں لکھنے لکھانے اور مصوری کی جانب مائل تھے۔ 1969۔ 1968 کے لگ بھگ عطا شاد نے ان کی آواز سے متاثر ہوکرانھیں ریڈیو ڈراموں میں صداکاری کا مشورہ دیا جس نے ان کی زندگی بدل ڈالی۔ 1973ء میں وہ لاہور منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے مختلف ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور بہت جلد مقبول اداکاروں میں شمار ہونے لگے۔ عابد علی کے معروف ٹیلی وژن سیریلز اور سیریز میں جھوک سیال، وارث، سورج کے ساتھ ساتھ، غلام گردش، سمندر، دوسرا آسمان، دشت ، ماسی اور ملکہ اور دیارِ دل اور فلموں میں خاک اور خون، موسیٰ خان، لیلیٰ، صاحبہ، بیتاب، فاتح، نگینہ، آواز ، وارث اور سخی بادشاہ کے نام سرفہرست ہیں۔ دو ٹی وی سیریلزسہیلی اور ماسی اور ملکہ پروڈیوس اور ڈائرکٹ بھی کرچکے ہیں۔ لاتعداد اعزازات حاصل کرچکے ہیں جن میں 14 اگست 1985ء کو حکومت پاکستان کی جانب سے ملنے والا صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سرفہرست ہے۔
1986-08-14

فردوس جمال اسٹیج، ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم کے معروف اداکار فردوس جمال 9جون 1954ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے فنی کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے ہوا تھا تاہم ان کی شہرت پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں سے ہوئی۔ 1975ء میں انہوں نے پی ٹی وی فیسٹیول کے سلسلے میں اردو ڈرامے جو اماں ملی تو کہاں ملی میں کام کیا جس کے بعد انہوں نے واپس مڑ کر نہیں دیکھا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد وہ لاہور منتقل ہوگئے جہاں محمد نثار حسین اور دیگر ڈرامہ پروڈیوسرز نے ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ان کے معروف ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز میں ایک محبت سو افسانے، چڑیاں دا چنبہ، وارث، ہزاروں راستے، وقت، ساحل اور دہلیز کے نام سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے متعدد انفرادی ڈراموں میں بھی اپنے فن کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ خصوصاً ان کے ڈرامے برگِ آرزومیں انہوں نے ایک بوڑھے پٹھان کا کردار اس قدر خوبصورتی ادا کیا کہ خوداس وقت کے صدر مملکت جنرل ضیاء الحق نے ذاتی طور پر انہیں ایک تعریفی خط لکھا۔ فردوس جمال ٹی وی ایوارڈ کے لیے 8 مرتبہ نامزد ہوئے اور انہوں نے 4 مرتبہ یہ اعزاز حاصل کیا۔ حکومت پاکستان انہیں 14 اگست 1986ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطاکیا۔
1987-08-14

محمد علی پاکستان کے عہد ساز اور صاحب طرز اداکار محمد علی 19 اپریل 1931ء کو رام پور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سید مرشد علی امام مسجد تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے پہلے ملتان اور پھر حیدرآباد میں سکونت اختیار کی۔ محمد علی نے سٹی کالج حیدرآباد سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ ان کے بڑے بھائی ارشاد علی ریڈیو پاکستان سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے محمد علی نے بھی ریڈیو پاکستان کے مختلف ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا۔ 1960ء کی دہائی کے آغاز میں محمد علی کو ہدایت کار قمر زیدی نے اپنی فلم آنکھ اور خون میں کاسٹ کیا مگر یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ 1962ء میں بطور اداکار محمد علی پہلی فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ ریلیز ہوئی۔ بطور ہیرو ان کی نمائش پذیر ہونے والی پہلی فلم شرارت تھی جس کے ہدایت کا رفیق رضوی تھے۔ اس سے قبل انہیں ہدایت کار ایس اے غفار نے مسٹر ایکس نامی جاسوسی فلم میں بطور ہیرو کاسٹ کیا تھا مگر وہ فلم کچھ تاخیر سے ریلیز ہوئی۔ محمد علی کی مقبولیت کا آغاز فلم خاموش رہو سے ہوا۔ اس کے بعد ان کی یکے بعد دیگرے لاتعداد فلمیں نمائش پذیر ہوئیں جن میں کاسٹیوم فلموں کے ساتھ ساتھ سماجی اور رومانی فلمیں بھی شامل تھیں۔ فلم تم ملے پیار ملا کی تکمیل کے دوران 29 ستمبر 1966ء کو انہوں نے اداکارہ زیبا سے شادی کرلی۔ ان کی ازدواجی زندگی بہت کامیاب رہی۔ محمد علی اور زیبا کی مشترکہ فلموں کی تعداد 70 ہے جن میں 59 فلموں میں انہوں نے بطور ہیرو ، ہیروئن کام کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔ محمد علی نے مجموعی طور پر 268 فلموں میں کام کیا جن میں اردو فلموں کی تعداد 251 تھی، 15 فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں جبکہ 2 فلمیں ڈبل ورژن تھیں۔ محمد علی نے مجموعی طور پر نو نگار ایوارڈز بھی حاصل کئے تھے۔ 14 اگست 1987ء کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ محمد علی 19 مارچ 2006ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔وہ لاہور میں حضرت میاں میر کے مزار کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔
1988-08-14

قاضی واجد پاکستان کے نامور اسٹیج، ریڈیو اور ٹی وی فن کار قاضی واجد لاہور میں پیدا ہوئے، ان کی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے بطور ڈرامہ آرٹسٹ ہوا۔ اسی دوران اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لیا جن میں خواجہ معین الدین کا ڈرامہ تعلیم بالغان ان کی پہچان بنا۔ ملک میں ٹیلی وژن کی آمد کے بعد خدا کی بستی میں راجا کا یادگار کردار ادا کیا۔ لاتعداد انفرادی ڈراموں ، سیریل اور سیریز میں کام کرچکے ہیں ، چند فلموں میں بھی کام کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے 14 اگست 1988ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا ۔
1988-08-14

مصطفیٰ قریشی پاکستان کے نامور فلمی اداکار مصطفیٰ قریشی 11 مئی 1940ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ریڈیو میں صداکاری کا مظاہرہ کرنے کے بعد فلمی دنیا کا رخ کیا۔ پہلی اردو فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ تھی۔ اردو ، پنجابی، پشتو اور سندھی فلموں میں یکساں طور پر مقبول تھے ۔ مجموعی طور پر 334 فلموں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا جن میں فلم ’’مولا جٹ‘‘ میں ان کا کردار سب سے زیادہ پسند کیا گیا۔ اداکاری کے شعبے میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انھیں 14 اگست 1988ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
1989-08-14

آغا طالش پاکستان کے نامور فلمی اداکار آغا طالش کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا اور وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے بمبئی میں بننے والی فلم ’’سرائے سے باہر‘‘ سے اپنی فلمی زندگی کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک ہوئے اور پھرفلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ پاکستان میں ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، دربار حبیب، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی ،فرنگی، زرقا، وطن، نیند، کنیز، لاکھوں میں ایک، زینت، امرأو جان ادا اور آخری مجرا کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے سات فلموں میں نگار ایوارڈ حاصل کیے تھے۔حکومت پاکستان نے اداکاری کے شعبہ میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں14 اگست 1989ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ آغا طالش نے 19 فروری 1998ء کو لاہور میں وفات پائی۔ وہ کریم بلاک علامہ اقبال ٹاون لاہور کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
1989-08-14

شفیع محمد شاہ پاکستان ٹیلی وژن اور فلموں کے معروف اداکار شفیع محمد شاہ 1948ء میں کنڈیارو میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور ایگری کلچر بنک میں ملازمت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اسی زمانے میں وہ اپنی خوب صورت آواز کی بدولت ریڈیو پاکستان میں بھی صداکاری کے جوہر دکھانے لگے۔ کچھ عرصہ بعد وہ ملازمت ترک کرکے لاہور چلے گئے جہاں اداکار محمد علی کی وساطت سے انہوں نے فلم ’’کورا کاغذ‘‘ میں کردار ادا کیا۔ لاہور میں ہی انہیں ٹیلی وژن کے پروڈیوسر شہزاد خلیل نے اپنے ڈرامے اڑتا آسمان سے چھوٹی اسکرین پر متعارف کروایا لیکن ان کی شہرت کا آغاز ڈرامہ سیریل ’’تیسرا کنارا‘‘ سے ہوا، یہ ڈرامہ بھی شہزاد خلیل کی پیشکش تھا۔ لاہور میں قیام کے دوران انہوں نے کئی اور فلموں میں کام کیا جن میں بیوی ہو تو ایسی، ایسا بھی ہوتا ہے، نصیبوں والی، روبی، تلاش، میرا انصاف اور الزام کے نام شامل ہیں۔ شفیع محمد شاہ نے ٹیلی وژن کے 50 سے زیادہ ڈرامہ سیریلز میں اداکاری کی جن میں آنچ، چاند گرہن، جنگل، دائرے، کالا پل، ماروی اور کھیلن کو مانگے چاند کے نام سرفہرست ہیں۔انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے ٹکٹ پر 2002ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا تھا مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ شفیع محمد شاہ کو ان کی خوب صورت اداکاری پر پی ٹی وی ایوارڈ بھی عطا کیا گیا تھا۔ حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 1989ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ان کی وفات کے بعد ستارہ امتیاز عطا کیا۔ شفیع محمد شاہ 17 نومبر 2007ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔