> <

1958-03-23
3081 Views
 زین العابدین پاکستان کے نامور مصور زین العابدین 29 دسمبر 1914ء کو میمن سنگھ میں پیدا ہوئے۔ 1943ء میں اُنھوں نے قحط بنگال کے موضوع پرپینٹنگز کی ایک سیریز بنائی جس نے انھیں بام عروج پر پہنچا دیا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی انھوں نے مصوری کا سلسلہ جاری رکھا اور پاکستان میں جدید مصوری کے بانیوں میں شمار ہوئے۔ 23 مارچ 1958ء کو انھیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انھوں نے سونار گاؤں کے مقام پر ایک لوک میوزیم قائم کیا اور میمن سنگھ میں ایک آرٹ گیلری بنائی۔ 28 مئی 1976ء کو وفات پائی ۔      
1962-03-23
2669 Views
صادقین پاکستان کے نامور مصور صادقین کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا اور وہ 20جون 1930ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1948ء میں آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان آئے جہاں انہوں نے بہت جلد اپنی منفرد مصوری اور خطاطی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ ان کی شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انہوں نے کراچی ایر پورٹ، سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب، سروسز کلب اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔ کچھ عرصے کے بعد وہ پیرس چلے گئے جہاں انہوں نے اپنے فن کے یادگار نمونے پیش کئے اور کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل کئے۔ 1969ء میں انہوں نے غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر کلام غالب کو بڑی خوب صورتی سے مصور کیا۔ 1970ء میں انہوں نے سورہ رحمٰن کی آیات کو انتہائی دلکش انداز میں پینٹ کیا اور مصورانہ خطاطی کے ایک نئے دبستان کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے لاہور کے عجائب گھر کی چھت کو بھی اپنی لازوال مصوری سے سجایا۔ 1981ء میں انہوں نے ہندوستان کا سفر کیا اور ہندوستان کے کئی شہروں میں اپنے فن کے نقوش بطور یادگار چھوڑے۔ 1986ء میں انہوں نے کراچی کے جناح ہال کو اپنی مصوری سے آراستہ کرنا شروع کیا مگر ان کی ناگہانی موت کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ وہ ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے اور رباعیات کہنے میں خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ ان کی رباعیات کے کئی مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے 23 مارچ 1962ء کو انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ 10 فروری 1987ء کو صادقین کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔      
1963-08-14
2953 Views
استاد اللہ بخش استاد اللہ بخش پاکستان کی مصوری کی تاریخ کا ایک معتبر اور محترم نام ہے۔ ان کا تعلق مصوری کے اس اسلوب سے تھا جس کی جڑیں ہماری اپنی مٹی سے پھوٹتی ہیں۔ استاد اللہ بخش 1895ء میں وزیر آباد کے مقام پر پیدا ہوئے۔ پانچ برس کی عمر میں وہ ماسٹر عبداللہ آرٹسٹ کے ہاں بورڈ نویسی کا کام سیکھنے کے لئے بھیج دیئے گئے۔ کچھ دنوں بعد وہ کلکتہ چلے گئے جہاں ان کی ملاقات آغا حشر کاشمیری سے ہوئی اور انہیں پردوں پر سینریاں بنانے کا کام مل گیا۔ 1919ء میں استاداللہ بخش تجربے اور مہارت سے آراستہ ہوکر واپس لاہور پہنچ گئے۔ اب ان کے ہاتھ میں صفائی پیدا ہوچکی تھی۔ یہاں انہوں نے منشی محبوب عالم کے پیسہ اخبار میں کمرشل آرٹسٹ کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔اس کے بعد ان کا رجحان پنجاب کی دیہاتی زندگی کی جانب ہوا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ پنجاب کی ثقافت کو اپنی مصوری کا موضوع بنایا بلکہ پنجاب کی رومانی داستانوں کے لافانی کرداروں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں کو مصورانہ تخیل سے چار چاند لگا دیئے۔ استاد اللہ بخش ایک طویل عرصہ تک مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ رہے اور اس کے محل کے مختلف گوشوں کو اپنے فن پاروں سے مزین کرتے رہے۔ مہاراجہ کے انتقال کے بعد وہ لاہور واپس آگئے۔ پھر تمام عمر یہیں اپنے علم کا فیض پھیلاتے رہے۔ انہیں حکومت پاکستان نے 14 اگست 1963ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور تمغہ امتیاز سے نوازاتھا۔ 18 اکتوبر 1978ء کو پاکستان کے اس عظیم مصور کا انتقال ہوگیا۔ 24 دسمبر 1991ء کو حکومت پاکستان نے ان کے پورٹریٹ اور پینٹنگ سے مزین ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔      
1965-08-14
2440 Views
زبیدہ آغا پاکستان کی مشہور مصورہ زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریدی مصوری کی بانیوں میں ہوتا ہے۔ وہ 1922ء میں فیصل آباد میں پیدا ہوئی تھیں۔ 1944ء میں کنیئرڈ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس وقت کے معروف مصور بی سی سانیال کے اسٹوڈیو سے تصور کشی کا آغاز کیا۔ 1946ء میں انہیں شہرہ آفاق مصور پکاسو کے شاگرد ماریو پرلنگیری سے مصوری سیکھنے کا موقع ملا۔ اسی برس انہوں نے لاہور میں ایک گروپ نمائش میں اپنی چار پینٹنگز اور دو مجسموں کی نمائش کی جن کی بڑی شہرت ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد انہیں بیرون ملک تربیت حاصل کرنے اور فن پاروں کی نمائش کرنے کا بھی متعدد مواقع ملے۔ 1971ء میں انہوں نے راولپنڈی میں معاصر مصوری کی آرٹ گیلری قائم کرنے کا موقع ملا جس کی وہ 1977ء تک ڈائریکٹر رہیں۔ اس گیلری سے وابستگی کے دوران ان کی اپنی مصوری کی رفتار خاصی کم ہوگئی اور ان کی مصوری کی بہت کم نمائشیں منعقد ہوسکیں۔ 14 اگست 1965ء کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ 31 اکتوبر 1997ء کو زبیدہ آغا لاہور میں وفات پاگئیں۔        
1966-08-14
2536 Views
    شاکر علی پاکستان میں تجریدی مصوری کے بانی اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے سابق پرنسپل شاکر علی 6 مارچ 1914ء کو رام پور میں پیدا ہوئے تھے۔ مصوری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس بمبئی سے حاصل کرنے کے بعد وہ انگلستان چلے گئے جہاں انہوں نے فن مصوری کا تین سالہ کورس مکمل کیا۔ انہیں کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصور آندرے لاہوتے (Andre L'Hote) کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ 1951ء میں پاکستان آگئے اور 1952ء میں میو اسکول آف آرٹس لاہور سے وابستہ ہوگئے جو بعد میں نیشنل کالج آف آرٹس کہلانے لگا۔ 1961ء میں وہ اسی کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور 1973ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ شاکر علی پاکستان میں تجریدی مصوری کے ساتھ ساتھ تجریدی خطاطی کے بانیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے آیات قرآنی کو تجریدی انداز میں لکھنے کی جو بنا ڈالی اسے بعد ازاں حنیف رامے‘ صادقین‘ آفتاب احمد‘ اسلم کمال‘ شفیق فاروقی‘ نیر احسان رشید‘ گل جی اور شکیل اسماعیل نے بام عروج تک پہنچا دیا۔ حکومت پاکستان نے فن مصوری میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 14 اگست 1966ء  و صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور 1971ء  میں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ شاکر علی کا انتقال 27 جنوری 1975ء کو لاہور میں ہوا۔ وہ لاہور میں گارڈن ٹائون کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔  
1967-08-14
2142 Views
  حاجی محمد شریف پاکستان کے نامور مصور حاجی محمد شریف 1889ء میں ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے دادا اور والد دونوں ریاست پٹیالہ کے درباری مصور تھے۔ حاجی محمد شریف نے مصوری کے اسرار و رموز اپنے والد بشارت اللہ خان کے ایک شاگرد لالہ شائورام اور استاد محمد حسین خان سے سیکھے اور 1906ء میں مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔ انیس سو چوبیس میں ان کی منی ایچر پینٹنگز کی ایک نمائش لندن میں ہوئی جس سے ان کی بڑی شہرت ہوئی اور انہیں ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز عطا کیا گیا۔ 1945ء میں وہ لاہور آگئے اور میو اسکول آف آرٹ میں مصوری کی تعلیم دینے لگے۔ 1965ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ سے بطور وزیٹنگ پروفیسر منسلک ہوئے اور ایک طویل عرصہ تک طلبہ کو مصوری کی تعلیم سے آراستہ کرتے رہیں۔ ان کے قدر دانوں میں صدر ایوب خان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو دونوں شامل تھے۔ حکومت پاکستان نے مصوری میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں14 اگست  1967ء کو  صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ حاجی محمد شریف 9 دسمبر 1978ء کو لاہور میں انتقال کرگئے اور لاہور ہی میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔  
1968-03-23
2845 Views
 عبدالرحمن چغتائی جناب عبدالرحمن چغتائی 21 ستمبر 1897ء کو لاہور ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق عہد شاہ جہانی کے مشہور معمار احمد معمار کے خاندان سے تھا جنہوں نے تاج محل آگرہ‘ جامع مسجد دہلی اور لال قلعہ دہلی کے نقشے تیار کیے تھے۔ 1914ء میں انہوں نے میو اسکول آف آرٹس لاہور سے ڈرائنگ کا امتحان امتیازی انداز میں پاس کیا اس دوران انہوں نے استاد میراں بخش سے خاصا استفادہ کیا پھر میو اسکول ہی میں تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔ 1919ء میں لاہور میں ہندوستانی مصوری کی ایک نمائش نے ان کی طبیعت پر مہمیز کا کام کیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنے اسکول کے پرنسپل کے مشورے پر اپنی تصاویر کلکتہ کے رسالے ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجیں۔ یہ تصاویر شائع ہوئیں تو ہر طرف چغتائی کے فن کی دھوم مچ گئی۔ اسی زمانے میں انہوں نے مصوری میں اپنے جداگانہ اسلوب کی بنیاد ڈالی جو بعد ازاں چغتائی آرٹ کے نام سے مشہور ہوئی۔ 1928ء میں انہوں نے مرقع چغتائی شائع کیا جس میں غالب کے کلام کی مصورانہ تشریح کی گئی تھی۔ یہ اردو میں اپنے طرز کی پہلی کتاب تھی جس کی شاندار پذیرائی ہوئی۔ 1935ء میں غالب کے کلام پر مبنی ان کی دوسری کتاب ’’نقش چغتائی‘‘ شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی بے حد مقبول ہوئی۔اس کے بعد ہندوستان اور ہندوستان سے باہر چغتائی کے فن پاروں کی متعدد نمائشیں منعقد ہوئیں جن کی فن کے قدر دانوں نے دل کھول کر پذیرائی کی ان کے فن پاروں کے کئی مزید مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں ’’چغتائی پینٹنگز‘‘ اور ’’عملِ چغتائی‘‘ کے نام بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد عبدالرحمن چغتائی نے نہ صرف پاکستان کے ابتدائی چار ڈاک ٹکٹوں میں سے ایک ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیا بلکہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے مونوگرام بھی تیار کیے جو آج بھی ان کے فن کی زندہ یادگار ہیں۔ حکومت پاکستان نے عبدالرحمن چغتائی کی فنی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 23مارچ 1968ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ عبدالرحمن چغتائی ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’لگان‘‘ اور ’’کاجل‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ جناب عبدالرحمن چغتائی نے17 جنوری 1975ء کو لاہور میں وفات پا ئی۔      
1968-08-14
2043 Views
    علی امام پاکستان کے نامور مصورسید علی امام 1924ء میں نرسنگھ پور (سی پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ 1949ء  میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی گریجویشن کیا۔ 1952ء میں انہوں نے راولپنڈی میں اپنا پہلا ون مین شو کیا اور 1956ء سے 1967ء تک لندن میں قیام کیا۔ 1967ء میں وہ سینٹرل انسٹیٹیوٹ آف آرٹ کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ 1970ء میں انہوں نے کراچی میں انڈس گیلری کے نام سے ایک نجی آرٹ گیلری قائم کی۔ وہ پاکستان کے اہم مصوروں میں شمار ہوتے تھے۔ حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 1968 ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا ۔ سید علی امام کا انتقال 23 مئی 2002ء کو کراچی میں ہوا۔  
1970-08-14
2414 Views
  گل جی پاکستان کے نامور مصور اور خطاط پشاور میں 25 اکتوبر 1926ء کو پیدا ہونے والے محمد اسماعیل گل جی ایک سول انجینئر، مصور ،خطاط اور مجسمہ ساز کے طور پر معروف ہیں۔ انھوں نے مصوری کا آغاز امریکہ میں بحثییت انجنیئر اپنی تعلیم کے حصول کے دوران کیا۔ یہ تعلیم انہوں نے کولمبیا  اور ہارورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ گل جی کی تصاویر کی پہلی نمائش 1950 میں منعقد ہوئی۔ 1959 سے پہلے تک گل جی کا فن ایک عام مصور کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ یہی دور تھا جب انہوں نے افغانستان کے پورے شاہی خاندان کی تصاویر تخلیق کیں۔ 1960ء کے بعد وہ ایک ایسے تجریدی مصور کے طور پر نمایاں ہوئے جس کی تخلیقات میں اسلامی خطاطی کی روایت کا خاصا دخل نظر آتا ہے۔ گل جی کو ہمیشہ نہ صرف حکومتی مدد بلکہ با اثر اور ذی حیثیت لوگوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ اسلامی خطاطی کی روائیت سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ گل جی 50 اور 60 کی دھائیوں میں شروع ہونے والی ایکشن پینٹنگ موومنٹ سے بھی خاصے متاثر نظر آتے ہیں جن میں بین الاقوامی سطح پر جیکسن پولک اور ایلیین ہیمیلٹن جیسے فنکاروں کے کام کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ گل جی کے کام میں اسلامی خطاطی اور ایکشن پینٹنگ کی ہم آہنگی کی ایک وجہ شاید ان دونوں جہتوں میں ’طاقت کی روانی‘ کی قدر مشترک ہے۔گل جی کا اپنی تصاویر میں مختلف غیر روایتی چیزوں کا استعمال انہیں خاصا مختلف بناتا ہے۔ وہ اپنی آئل پینٹنگز میں شیشہ اور سونے اور چاندی کے ورق استعمال کرنے پر بھی جانے جاتے ہیں۔ 1960 ء کے بعد گل جی نے پینٹنگ کے ساتھ ساتھ مجسمہ سازی کی طرف بھی توجہ دی جو ان کی پینٹنگز کی طرح اسلامی خطاطی سے متاثر نظر آتی ہے۔ تانبے میں ڈھالے گئے یہ فن پارے اسلامی خطاطی سے نہ صرف دیکھنے میں متاثر لگتے ہیں بلکہ بعض قرآنی آیات کی تشریح کے طور پر تخلیق کیے گئے ہیں۔ ان کی پینٹگز چمکدار اور رنگوں سے بھرپور ہوتی تھیں جس میں ان کی حساسیت اور شدتِ جذبات کی جھلک نظر آتی۔ان کی خطاطی کے چند نمونے اسلام آباد میں فیصل مسجد میں آویزاں کیے گئے ہیں۔ دنیا کی کئی مشہور ہستیوں اور سربراہ مملکت کی تصاویر انہوں نے بنائیں۔ فیصل مسجد کے میناروں پر موجود چاند بھی گل جی کی ڈیزائن کردہ ہیں۔ پاکستان کا پارلیمنٹ ہاؤس بھی ان کی مصوری سے مزین ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں 14اگست 1970ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ گل جی 19 دسمبر 2007ء کی اپنی رہائش گاہ میں اپنی اہلیہ اور نوکرانی سمیت مردہ حالت میں پائے گئے۔ ان کی موت کے اسباب کا آج تک علم نہیں ہوسکا ہے۔  
1978-08-14
2222 Views
   احمد پرویز پاکستان کے نامور مصور احمد پرویز 7جولائی 1926ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیم سینٹ جوزف کالج، بارہ مولا اور گورڈن کالج راولپنڈی میں حاصل کی۔ 1952ء میں ان کی مصوری کی پہلی نمائش پنجاب یونیورسٹی لاہور کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ میں منعقد ہوئی جسے اہل فن نے بے حد سراہا۔ 1955ء سے 1964ء تک کا عرصہ انہوں نے لندن میں اور پھر 1966ء سے 1969ء تک کا عرصہ نیویارک میں بسر کیا۔ احمد پرویز تجریدی مصوری میں ایک علیحدہ اور منفرد اسلوب کے مالک تھے۔ زندگی کے آخری دورمیں انہوں نے اپنے لئے گلدان اور پھول کے موضوع کا انتخاب کیا تھا اور اس موضوع پر لاتعداد تصویریں بنائی تھیں۔ تیز اور شوخ رنگ ان کی مصوری کی ایک خاص شناخت تھے اور شاید ان کی ذات کا اظہار بھی۔ 14اگست 1978ء کو حکومت پاکستان نے احمد پرویز کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ انہوں نے 5 اکتوبر 1979ء کو صرف 53 برس کی عمر میں کراچی میں وفات پائی۔ وہ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔  
UP