1971-12-16

سقوط ڈھاکا ٭16دسمبر 1971ء کو دوپہر کے وقت بھارتی فوج کی ایسٹرن کمانڈ کا یہودی چیف آف اسٹاف میجر جنرل جیکب ڈھاکا پہنچا۔ اس کا استقبال اس کے پاکستانی مدمقابل بریگیڈیئر باقر صدیقی نے کیا۔ یہودی جنرل اپنے ساتھ ایک دستاویز لایا تھا جسے سقوط کی دستاویز (Instrument of Surrender) کہا جاتا ہے۔ جنرل نیازی اسے جنگ بندی کا مسودہ کہنا پسند کرتے تھے۔ جیکب نے یہ کاغذات پاکستانی حکام کے حوالے کیے۔ جنرل فرمان نے کہا۔ ’’یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ کمان کیا چیز ہے، ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔‘‘ جنرل جیکب نے کہا۔ ’’مجھے اس میں ردوبدل کا اختیار نہیں۔‘‘ انڈین ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل کھیرا نے‘ جو پاس ہی کھڑے تھے‘ لقمہ دیا ’’یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘ جہاں تک آپ کا تعلق ہے آپ صرف ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔‘‘ جنرل فرمان نے کاغذات جنرل نیازی کے آگے سرکا دیے۔ جنرل نیازی جو ساری گفتگو سن رہے تھے خاموش رہے‘ اس خاموشی کو ان کی مکمل رضا سمجھا گیا۔ تھوڑی دیر بعد نیازی‘ بھارت اور بنگلہ دیش کی مشترکہ ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر‘ لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کو لینے ڈھاکا ائیرپورٹ گئے‘ بھارتی کمانڈر اپنی فتح کی خوشی میں اپنی بیوی کو بھی ساتھ لایا تھا۔ جونہی یہ میاں بیوی ہیلی کاپٹر سے اترے‘ بنگالی مردوں اور عورتوں نے اپنے اس نجات دہندہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کو پھولوں کے ہار پہنائے‘ گلے لگایا ‘ بوسے دیے اور تشکر بھرے جذبات سے انہیں خوش آمدید کہا۔ جنرل نیازی نے بڑھ کر فوجی انداز میں سلیوٹ کیا، پھر ہاتھ ملایا۔ یہ نہایت دلدوز منظر تھا۔ فاتح اور مفتوح ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔ جنرل نیازی اور جنرل اروڑا‘ وہاں سے سیدھے رمنا ریس کورس گرائونڈ پہنچے‘ جہاں سرعام جنرل نیازی سے ہتھیار ڈلوانے کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ تقریب کا نظارہ کرنے کے لیے ہزاروں بنگالی موجود تھے۔ جنہیں بھارتی سپاہیوں نے روک رکھا تھا۔ تقریب کے لیے تھوڑی سی جگہ باقی تھی جہاں ایک چھوٹی سی میز پر بیٹھ کر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا اور جنرل نیازی نے سقوط مشرقی پاکستان کی دستاویز پر دستخط کردئیے۔ اس کے بعد نیازی نے اپنا ریوالور نکال کر اروڑہ کو پیش کردیا اور یوں ’’سقوط ڈھاکا‘‘ پر آخری مہر ثبت کردی۔ اس موقع پر جنرل اروڑہ نے پاکستانی سپاہیوں کی ایک گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا جو اس بات کی علامت تھا کہ اب وہی گارڈ ہیں اور وہی آنر کے مستحق…!‘‘
1984-02-11

مقبول بٹ ٭11 فروری 1984ء کو دہلی کی تہاڑ جیل میں کشمیری حریت پسند رہنما مقبول بٹ کو پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ مقبول بٹ کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا اور انہوں نے کشمیر کو مسلح جدوجہد کے ذریعہ آزاد کروانے کے لئے قومی محاذ آرائی قائم کیا تھا۔ 1965ء میں پاک بھارت جنگ کے بعد وہ سرحد پار کرکے مقبوضہ کشمیر چلے گئے جہاں انہیں بھارت کے ایک انٹیلی جنس آفیسر کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی۔ مقبول بٹ اس سزا کے بعد جیل سے فرار ہوکر پاکستان آگئے۔ یہاں کچھ عرصے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد 1976ء میں وہ دوبارہ مقبوضہ کشمیر چلے گئے جہاں بھارتی پولیس نے انہیں گرفتار کرکے 11 فروری 1984ء کو تختہ دار پر چڑھا دیا۔ مقبول بٹ کو پھانسی دینے کا فوری سبب انگلینڈ میں ہندوستانی سفارتی مشن کے اہلکار مہاترے کا قتل بنا تھا جسے مقبول بٹ کے ساتھیوں نے انہیں رہا کروانے کے لئے اغوا کیا تھا مگر بھارتی حکومت کی سرد مہری کے باعث اسے قتل کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
1986-10-31

سہراب گوٹھ ٭8 اگست 1986ء کو کراچی میں ایک کامیاب جلسہ کرنے کے بعد مہاجر قومی موومنٹ نے اعلان کیا کہ اس کا دوسرا بڑا جلسہ 31 اکتوبر 1986ء کو حیدرآباد میں منعقد کیا جائے گا۔ 31 اکتوبر کی صبح ایم کیو ایم کے کارکنان مختلف گاڑیوں میں سوار ہوکر حیدرآباد کی جانب روانہ ہونے لگے۔ اس جلوس کو سہراب گوٹھ کے آگے سے گزرنا تھا، جو پختون آبادی کا اکثریتی علاقہ ہے۔ چونکہ شہر میں پچھلے سال ڈیڑھ سال میں مہاجروں اور پختونوں میں کئی جھڑپیں ہوچکی تھیں اس لئے حکومت نے پہلے ہی ایم کیو ایم اور سہراب گوٹھ کے عمائدین کے درمیان ایک معاہدہ کروادیا تھا۔ مگر اس معاہدے کے باوجود جب یہ پرجوش جلوس سہراب گوٹھ کے آگے سے گزرا تو جلوس کے شرکا نے پرجوش نعرے لگانے شروع کردیئے۔ جب تقریباً پچاس بسیں گزر چکیں تو اچانک جلوس پر پتھرائو شروع ہوگیا۔ یہ پتھرائو تھوڑی دیر میں دو طرفہ فائرنگ میں تبدیل ہوگیا۔ فائرنگ کا یہ تبادلہ کئی گھنٹے جاری رہا اور اس فائرنگ کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک اور پندرہ شدید زخمی ہوگئے۔ یہ اطلاع جنگل کی آگ کی طرح کراچی اور حیدرآباد میں پھیل گئی اور یہ دونوں شہر باہمی فسادات اور بدامنی کی لپیٹ میں آگئے۔ متعدد دکانیں، مکانات، منی بسیں، رکشے اور لکڑی کی ٹالیں جلادی گئیں، سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹریفک معطل کردیا گیا، شاہراہوں پر جگہ جگہ آگ کے الائو روشن کردیئے گئے۔ اسی دن دوسرا بڑا تصادم حیدرآباد شہر میں بھی ہوگیا۔ وہاں ایک جلوس مارکیٹ کے علاقے سے گزرتا ہوا جلسہ گاہ کی طرف جارہا تھا تو اس پر نامعلوم افراد نے گولی چلادی جس کے نتیجے میں جلوس کے تین شرکا زخمی ہوگئے۔ اس پر مشتعل افراد نے ایک کار، ایک درجن سے زیادہ رکشے اور دو ہوٹلوں کو نذر آتش کردیا۔آگ اور خون کے اس پس منظر میں اسی دن مہاجر قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے پکا قلعہ گرائونڈ حیدرآباد میں بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ جلسے کے بعد انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا اور کہاکہ سہراب گوٹھ کے معززین نے جلوس کے قافلوں پر حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن انہوں نے اپنا وعدہ ایفا نہیں کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو گرفتار کرکے پھانسی دی جائے اور جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کو معاوضہ دیا جائے۔ کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے دو بڑے جلسوں، اسلحہ کی نمائش اور قوت کے مظاہرے نے سندھ کی سیاست کو ایک نیا رخ دے دیا اور مہاجر بستیوں میں قیادت سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکل کر ایم کیو ایم کی جانب منتقل ہونے لگی۔
1995-11-19

خودکش حملہ ٭19 نومبر 1995ء کو اسلام آباد میں واقع مصری سفارت خانے میں کار میں نصب کئے گئے دو بموں کے دھماکے ہوئے جن میں سفارت خانے کے ڈپٹی چیف مشن سمیت 17 افراد جاں بحق اور 90 افراد زخمی ہوگئے۔ مصر کے پاکستان میں سفیر اس دھماکے کے وقت دفتر میں موجود نہیں تھے اس لئے وہ کسی بھی نقصان سے محفوظ رہے۔ اس دھماکے کے تھوڑی دیر بعد قاہرہ میں مصر کی تین تنظیموں نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی جن میں سب سے بڑی جماعت جماعۃ اسلامیہ تھی جبکہ دیگر دو جماعتوں کے نام انٹرنیشنل جسٹس اور جہاد بتائے گئے تھے۔ بعض واقفان حال بتاتے ہیں کہ مصری سفارت خانے میں ہونے والا یہ دھماکا کار میں نصب کئے گئے بموں کا شاخسانہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک خودکش حملے کا نتیجہ تھا اور یہ پاکستان کی سرزمین پر ہونے والا پہلا خودکش حملہ تھا۔
2005-10-08

زلزلہ ٭8 اکتوبر 2005ء کو اسلام آباد، سرحد، پنجاب اور آزاد کشمیر سمیت قیامت خیز اور ملکی تاریخ کے بدترین زلزلے میں50 ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوگئے۔ یہ زلزلہ صبح 8 بجکر 50 منٹ پر آیا، اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر7.6 تھی اور اس کا مرکز اسلام آباد سے 95 کلو میٹر دور اٹک اور ہزارہ ڈویژن کے درمیان تھا۔ اس زلزلے سے آزاد جموں و کشمیر اور صوبہ سرحد کی 15 تحصیلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور مجموعی طور پر 5 لاکھ 70 ہزار گھرانے متاثر ہوئے۔ زلزلے کے بارے میں اطلاعات جوں ہی ملک کے مختلف علاقوں میں پہنچیں سیاسی اور سماجی تنظیموں اور سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے متاثرین کے امداد کے لئے اپنے اپنے طور پر سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ صدر مملکت نے ایک ریلیف فنڈ بھی قائم کیا جس میں لاکھوں لوگوں نے عطیات دیئے۔ زلزلہ زدگان کی امداد کے سلسلے میں بیرون ممالک بھی پیچھے نہیں رہے۔ 11 نومبر 2005ء کو وفاقی حکومت اور عالمی اداروں کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس سلسلے میں 5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، 57 لاکھ افراد متاثر ہوئے، جن کی تعمیر نو پر 3.5 ارب ڈالر اور ریلیف آپریشن کے لئے 1.5 ارب ڈالر درکار ہیں۔