1915-10-01

مولانا عبدالستار خان نیازی ٭ معروف سیاستدان، عالم دین اور جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما مولانا عبدالستار خان نیازی یکم اکتوبر 1915ء کو اٹک پنوالا تحصیل عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے تھے۔ عیسیٰ خیل سے میٹرک کرنے کے بعد انہوں نے دینی تعلیم کے حصول کے لئے اشاعت اسلام کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ اس کالج سے منشی فاضل کرنے کے بعد 1940ء میں ایم اے کیا اور اسلامیہ کالج لاہور میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ اسی دوران انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور پنجاب مسلم فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے۔ بعدازاں وہ پنجاب مسلم لیگ کے سیکریٹری کے عہدے پر بھی فائز ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی اور صوبائی کونسل کے رکن بھی بنے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے حسین شہید سہروردی کی پاکستان عوامی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1946ء اور 1951ء میں وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1953ء میں انہوں نے تحریک تحفظ ختم نبوت میں فعال کردار ادا کیا جس پر انہیں مارشل لاء کی ایک فوجی عدالت نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ سزائے موت سنائی۔ بعدازاں ان دونوں رہنمائوں کی یہ سزا 14 سال قید بامشقت میں تبدیل ہوگئی۔ 1970ء کی دہائی میں انہوں نے جمعیت علمائے پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور اس کے سیکریٹری جنرل اور مرکزی صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ 1988ء اور 1990ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1994ء سے 1999ء تک سینٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ اسی دوران انہوں نے وفاقی وزیر مذہبی امور کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔ ٭2 مئی 2001ء کو معروف سیاستدان، عالم دین اور جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما مولانا عبدالستار خان نیازی میانوالی میں وفات پاگئے۔ مولانا عبدالستار خان نیازی مدرسہ و جامع مسجد انجمن فلاح المسلمین، روکڑی موڑ، میانوالی کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔
1981-09-25

چوہدری ظہور الٰہی ٭25 ستمبر 1981ء کو ممتاز مسلم لیگی رہنما چوہدری ظہور الٰہی اپنی کار میں لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس مشتاق حسین کو ان کے گھر چھوڑنے جارہے تھے ان کے ہمراہ سینئر ماہر قانون ایم اے رحمن ایڈووکیٹ بھی سفر کررہے تھے جنہوں نے بھٹو کے مقدمہ قتل میں پبلک پراسیکیوٹر کے فرائض انجام دیئے تھے۔ دوپہر دو بجے کے وقت جب ان کی کار ماڈل ٹائون میں نرسری چوک کے قریب پہنچی تو ایک نامعلوم شخص نے کار پر دستی بم پھینکا اور چار نامعلوم افراد نے اسٹین گن سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں چوہدری صاحب اور ان کے ڈرائیور نسیم موقع واردات پر جاں بحق ہوگئے۔ جسٹس مشتاق حسین کو معمولی زخم آئے جبکہ جناب ایم اے رحمن محفوظ رہے۔بعدازاں اس قتل کی ذمہ داری میر مرتضیٰ بھٹو نے قبول کرلی اور کہاکہ یہ ان کی تنظیم الذوالفقار کا کارنامہ ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد 20 نومبر 1981ء کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں لالہ اسد نامی ایک دہشت گرد کو ہلاک کیا جس پر الزام تھا کہ وہ چوہدری ظہور الٰہی کے قاتلوں میں شامل تھا۔ اس کے بعد حکومت نے الذوالفقار کے کئی سو تخریب کاروں اور دہشت گردوں کو بھی گرفتار کیا جن میں رزاق جھرنا نامی ایک دہشت گرد پر چوہدری ظہور الٰہی کے قتل کے الزام میں مقدمہ چلا کر اسے 7مئی 1983ء کو موت کی سزا دے دی گئی۔
1988-01-20

خان عبدالغفار خان ٭20 جنوری 1988ء کو پاکستان کے نامور سیاستدان خان عبدالغفار خان پشاور میں وفات پاگئے۔ باچا خان جنوری 1890ء میں ہشت نگر کے گائوں اتمان زئی میں پیدا ہوئے تھے۔ پشاور اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ انہوں نے رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاجی تحریک سے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور تحریک ہجرت اور ہجرت خلافت میں فعال حصہ لیا۔ 1926ء میں وہ انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوئے بعدازاں انہوں نے اپنی اصلاحی تحریک انجمن اصلاح الافاعنہ کے تحت خدائی خدمت گار تحریک شروع کی۔ اسی تحریک میں انہیں بادشاہ خان (باچاخان )کا خطاب دیا گیا۔ انہوں نے کانگریس کی عدم تعاون کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1937ء کے عام انتخابات میں انہیں سرحد اسمبلی میں بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔ ابتدا میں ان کی اکثریت کے باوجود صاحبزادہ عبدالقیوم خان کو صوبے کا وزیراعلیٰ بنادیا گیا مگر تحریک عدم اعتماد کے بعد ان کے بعد ڈاکٹر خان صاحب صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ 1946ء کے عام انتخابات میں بھی خان عبدالغفار خان کی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل ہوئی۔ 1947ء میں انہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی مگر صوبہ سرحد میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد یہ صوبہ پاکستان میں شامل کرلیا گیا۔ خان عبدالغفار خان نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کئی مرتبہ دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تاہم حکومت وقت سے ان کا ٹکرائو جاری رہا اور انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ قید و بند اور جلاوطنی میں بسر کیا۔ ان کے انتقال کے بعد انہیں جلال آباد میں ان کے اس مکان کے سبزہ زار میں دفن کیا گیا جو انہیں افغانستان میں قیام کے دوران افغان حکومت نے بطور تحفہ پیش کیا تھا۔
2001-05-02

مولانا عبدالستار خان نیازی ٭ معروف سیاستدان، عالم دین اور جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما مولانا عبدالستار خان نیازی یکم اکتوبر 1915ء کو اٹک پنوالا تحصیل عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے تھے۔ عیسیٰ خیل سے میٹرک کرنے کے بعد انہوں نے دینی تعلیم کے حصول کے لئے اشاعت اسلام کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ اس کالج سے منشی فاضل کرنے کے بعد 1940ء میں ایم اے کیا اور اسلامیہ کالج لاہور میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ اسی دوران انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور پنجاب مسلم فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے۔ بعدازاں وہ پنجاب مسلم لیگ کے سیکریٹری کے عہدے پر بھی فائز ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی اور صوبائی کونسل کے رکن بھی بنے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے حسین شہید سہروردی کی پاکستان عوامی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1946ء اور 1951ء میں وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1953ء میں انہوں نے تحریک تحفظ ختم نبوت میں فعال کردار ادا کیا جس پر انہیں مارشل لاء کی ایک فوجی عدالت نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ سزائے موت سنائی۔ بعدازاں ان دونوں رہنمائوں کی یہ سزا 14 سال قید بامشقت میں تبدیل ہوگئی۔ 1970ء کی دہائی میں انہوں نے جمعیت علمائے پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور اس کے سیکریٹری جنرل اور مرکزی صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ 1988ء اور 1990ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1994ء سے 1999ء تک سینٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ اسی دوران انہوں نے وفاقی وزیر مذہبی امور کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔ ٭2 مئی 2001ء کو معروف سیاستدان، عالم دین اور جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما مولانا عبدالستار خان نیازی میانوالی میں وفات پاگئے۔ مولانا عبدالستار خان نیازی مدرسہ و جامع مسجد انجمن فلاح المسلمین، روکڑی موڑ، میانوالی کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔
2006-01-26

خان عبدالولی خان ٭26 جنوری 2006ء کو پاکستان کے نامور سیاستدان خان عبدالولی خان پشاور میں انتقال کرگئے۔ خان عبدالولی خان 11 جنوری 1917ء کو ضلع چارسدہ کے علاقے اتمان زئی میں پیدا ہوئے تھے۔ان کے والد خان عبدالغفار خان برصغیر کے عظیم سیاسی رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ خان عبدالولی خان نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے قائم کردہ آزاد اسلامیہ ہائی اسکول میں حاصل کی۔ بعدازاں خان عبدالولی خان پبلک اسکول ڈیرہ دون سے انہوں نے 1933ء میں سینئر کیمبرج کیا۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز خدائی خدمت گار کی حیثیت سے 1942ء میں کیا۔ وہ پہلی دفعہ 1943ء میں جیل گئے تاہم جلد ہی رہا کردیئے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں انہیں دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ 1954ء تک وہ پابند سلاسل رہے۔1958ء میں انہوں نے اسٹاک ہوم میں اور 1986ء میں کوپن ہیگن میں ایفرو ایشین پیپلز سالیڈیرٹی آرگنائزیشن کے اجلاسوں میں شرکت کی۔ خان عبدالولی خان 1967ء میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے صدر منتخب ہوئے۔ 1970ء میں وہ نیپ کے پلیٹ فارم سے صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1972ء میں ان کی جماعت صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مخلوط حکومتوں کا حصہ بنی۔ فروری 1973ء میں حیات محمد خان شیرپائو کے قتل کے بعد نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی اور خان عبدالولی خان سمیت تمام مرکزی رہنما گرفتار کرلئے گئے۔ ان پر بغاوت اور پاکستان دشمنی کا مقدمہ قائم کردیا گیاجو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حیدرآباد سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔اس مقدمے سے انہیں8دسمبر 1977ء کو رہائی نصیب ہوئی۔ رہائی کے بعد انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات مؤخر کرکے پہلے سابق حکمرانوں کا احتساب کریں۔ ان کے اس مطالبے نے فوجی حکمرانوں کو ملک پر ایک طویل عرصہ تک آمریت کا ایک خوب صورت جواز فراہم کردیا۔ احتساب کا یہ عمل کبھی مکمل نہ ہوسکا اور فوجی حکمران 11 برس تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔1978ء میں خان عبدالولی خان، شیرباز خان مزاری کی زیر قیادت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے اواخر میں انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے قیام کا اعلان کیا جو 1981ء میں تحریک بحالی جمہوریت کا حصہ بن گئی۔ یہ ولی خان کی سیاسی کیریئر کا ایک نیا موڑ تھا جس میں وہ اپنے بدترین حریف ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ اور بیٹی کے ساتھ ساتھ شریک تھے۔ 1988ء میں انہوں نے قومی اور صوبائی دونوں نشستوں پر انتخاب لڑا مگر وہ صرف قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوسکے۔ ابتدا میں انہوں نے پیپلزپارٹی کی حکومت کی حمایت جاری رکھی مگر بعد میں دونوں جماعتوں کی راہیں مختلف ہوگئیں۔ 1990ء کے عام انتخابات کے شکست کے بعد خان عبدالولی خان نے عوامی نیشنل پارٹی کی صدارت سے دستبردار ہوکر اس پارٹی کے رہبر کا منصب سنبھال لیا جس پر وہ اپنے وفات تک فائز رہے۔