1786-11-29

سید احمد شہید ٭ برصغیر پاک وہند کے عظیم مجاہد آزادی سید احمد شہید کی تاریخ پیدائش 29نومبر1786ء ہے۔ آپ شاہ عبدالعزیزدہلوی کے شاگرد تھے۔ 1826ء میں آپ نے اعلان کیا کہ سکھوں کی برھتی ہوئی ریشہ دوانیوں کے باعث مسلمانوں پر جہاد فرض ہو گیا۔ آپ بہت سے مجاہدین کے ہمراہ صوبہ سرحد پہنچے۔ آخری معرکہ بالا کوٹ کے مقام پر ہوا جہاں 6 مئی1831ء کوحضرت سید احمد شہید نے جام شہادت نوش کیا۔ آپ کے دوش بدوش شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل بھی شہادت سے سرفراز ہوئے۔ آپ دونوں کے مزار بالا کوٹ کے مقام پر مرجع خلائق ہیں۔
1831-05-06

سید احمد شہید ٭ برصغیر پاک وہند کے عظیم مجاہد آزادی سید احمد شہید کی تاریخ پیدائش 29نومبر1786ء ہے۔ آپ شاہ عبدالعزیزدہلوی کے شاگرد تھے۔ 1826ء میں آپ نے اعلان کیا کہ سکھوں کی برھتی ہوئی ریشہ دوانیوں کے باعث مسلمانوں پر جہاد فرض ہو گیا۔ آپ بہت سے مجاہدین کے ہمراہ صوبہ سرحد پہنچے۔ آخری معرکہ بالا کوٹ کے مقام پر ہوا جہاں 6 مئی1831ء کوحضرت سید احمد شہید نے جام شہادت نوش کیا۔ آپ کے دوش بدوش شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل بھی شہادت سے سرفراز ہوئے۔ آپ دونوں کے مزار بالا کوٹ کے مقام پر مرجع خلائق ہیں۔
1876-09-26

سید غلام بھیک نیرنگ ٭ تحریک پاکستان کے رہنما، ادیب اور سیاست دان سید غلام بھیک نیرنگ کی تاریخ پیدائش 26 ستمبر 1876ء ہے۔ سید غلام بھیک نیرنگ دورانہ ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل تھے۔ انہوں نے تحریک خلافت، تحریک موالات اور آل انڈیا مسلم لیگ میں فعال کردار ادا کیا۔1936ء میں مرکزی مجلس قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔وہ ایک معروف ادیب بھی تھے اور اردو کے ادبی ماہنامے مخزن کے ادارتی امور میںشیخ عبدالقادر کی معاونت کیا کرتے تھے۔ 16 اکتوبر 1952ء کو سید غلام بھیک نیرنگ لاہور میں وفات پاگئے۔
1877-11-02

سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم ٭2 نومبر 1877ء مسلمانوں کے اسماعیلی فرقے کے 48 ویں امام اور تحریک پاکستان کے عظیم رہنما سر سلطان محمد شاہ آغا خاں سوم کی تاریخ پیدائش ہے۔ سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم 2 نومبر 1877ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد 18 اگست 1885ء کو فقط 8 برس کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوئے۔ وہ اپنے زمانے کے عظیم سیاستدان اور مدبر تھے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ برصغیر پاک و ہند کی خوشحالی کے لیے عظیم خدمات انجام دیئے بلکہ بین الاقوامی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم نے مسلم لیگ کی تاسیس اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام میں بھی بڑا فعال کردار ادا کیا۔ وہ کئی مرتبہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ 1930ء کی دہائی میں انہوں نے لندن میں منعقد ہونے والی گول میز کانفرنسوں میں مسلمانان برصغیر کی نمائندگی کی۔ انہیں اپنے سیاسی بصیرت اور اعلیٰ تدبر کی وجہ سے دنیا بھر میں بے انتہا احترام اور مقبولیت حاصل تھی۔ 1937ء میں انہیں لیگ آف نیشنز کی جنرل اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا۔ سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم نے 11 جولائی 1957ء کو وفات پائی اور مصر میں اسوان کے مقام پر آسودۂ خاک ہوئے۔ آپ کی خود نوشت سوانح عمری Memories of Aga Khan کے نام سے شائع ہوئی تھی۔
1889-12-25

چوہدری خلیق الزماں ٭ تحریک آزادی کے نامور رہنما چوہدری خلیق الزماں 25 دسمبر 1889ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرنے کے بعد انہوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ سیاست کی ابتدا انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے کی مگر بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ ہوئے اور اس جماعت سے ان کا یہ تعلق مرتے دم تک برقرار رہا۔ چوہدری خلیق الزماں آل انڈیا مسلم لیگ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ 15 اگست 1947ء کو انہوں نے مسلمانان ہند کی نمائندگی کرتے ہوئے ہندوستانی پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور مسلمانان ہند اور پاکستان کی جانب سے ہندوستان کو آزادی کی مبارک باد پیش کی۔ دسمبر 1947ء میں وہ پاکستان مسلم لیگ کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ وہ مشرقی پاکستان کے گورنر بھی رہے اور انڈونیشیا اور فلپینز میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ انہوں نے جدوجہد آزادی کے موضوع پر Pathway to Pakistan کے نام سے ایک کتاب بھی تحریر کی تھی جس کا اردو ترجمہ ’’شاہراہ پاکستان‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ 18 مئی 1973ء کو چوہدری خلیق الزماں کراچی میں انتقال کرگئے اور میوہ شاہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
1896-04-07

بیگم جہاں آراء شاہنواز ٭7 اپریل 1896ء جدوجہد آزادی کی خاتون رہنما اور آل انڈیا مسلم لیگ کی پہلی خاتون رکن، بیگم جہاں آراء شاہنواز کی تاریخ پیدائش ہے۔بیگم جہاں آراء شاہنواز لاہور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد سر میاں محمد شفیع نہ صرف آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں شامل تھے بلکہ اس تنظیم کا نام بھی انہی نے تجویز کیا تھا۔ بیگم جہاں آراء شاہنواز کو آل انڈیا مسلم لیگ کی پہلی خاتون رکن بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ 1935ء میں انہوں نے لیگ آف نیشنز کے اجلاس اور مزدوروں کی بین الاقوامی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ 1937ء اور 1946ء میں وہ پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں، 1946ء میں قائداعظم نے انہیں مسلم لیگ کا مؤقف بیان کرنے کے لئے مرزا ابوالحسن اصفہانی کی معیت میں امریکا روانہ کیا۔ 1947ء میں وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں، 1955ء سے 1961ء تک وہ مغربی پاکستان اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔ بیگم جہاں آراء شاہ نواز نے اپنے والد کے حوالے سے ایک کتاب Father And Daughter تحریر کی اس کے علاوہ ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ حسن آراء کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ بیگم جہاں آراء شاہنواز 27 نومبر 1979ء کو لاہور میں وفات پاگئیں اور لاہور ہی میں باغبان پورہ میں اپنے خاندانی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں۔
1897-11-16

چوہدری رحمت علی ٭ 16 نومبر 1897ء کو جدوجہد آزادی کے رہنما اور لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے پہلی مرتبہ 1915ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں بزم شبلی کے افتتاحی اجلاس میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہندوستان کے شمالی علاقوں کو ایک مسلم ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔ 1929ء میں وہ انگلستان چلے گئے جہاں 28 جنوری 1933ء کو انہوں نے ایک کتابچہ نائوآر نیور شائع کیا۔ اس کتابچے میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا اور اس کا نام ’’پاک ستان‘‘ تجویز کیا یہ پاک ستان آگے چل کر پاکستان بن گیا۔ 14 اگست 1947ء کو چوہدری رحمت علی کے خواب کو تعبیر مل گئی مگر وہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت سے مطمئن نہ تھے۔ 1948ء میں وہ پاکستان تشریف لائے لیکن قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگی قیادت کے رویہ سے مایوس ہوکر واپس انگلستان لوٹ گئے جہاں انہوں نے 3فروری 1951ء کوکیمبرج کے ایک ہسپتال میں غریب الوطنی‘ ناداری اور بیماری کے عالم میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ لفظ پاکستان کے خالق کو دفن ہونے کے لیے پاکستان میں دو گز زمین بھی نہ مل سکی۔
1905-02-03

نواب بہادر یار جنگ ٭ جدوجہد آزادی کے نامور رہنما نواب بہادر یار جنگ کا اصل نام محمد بہادر خان تھا اور وہ 3 فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھے۔ 1927ء میں انہوں نے مجلس تبلیغ اسلام کے نام سے ایک جماعت قائم کی بعدازاں وہ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک اور مجلس اتحاد المسلمین کے سرگرم کارکن رہے۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم رہنمائوں میں شامل تھے اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی رفقا میں شمار ہوتے تھے۔ مارچ 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جس اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اس میں آپ نے بڑی معرکہ آرا تقریر کی تھی۔ نواب بہادر یارجنگ آل انڈیا اسٹیٹس مسلم لیگ کے بانی اور صدر بھی تھے۔ آپ کو قائد ملت اور لسان الامت کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔ 25 جون 1944ء نواب بہادر یار جنگ حیدر آباد دکن میں وفات پا گئے۔
1920-11-30

شیخ الہند مولانا محمود الحسن ٭30 نومبر 1920ء جدوجہد آزادی کے مشہور رہنما شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی تاریخ وفات ہے۔ مولانا محمود الحسن 1851ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم تھے اور پھر بعدازاں انہیں اس عظیم درس گاہ کا صدر مدرس بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ انہوں نے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے خلافت حاصل کی تھی اور وہ خود سید انور شاہ کاشمیری، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا مناظر احسن گیلانی جیسے جید علما کے استاد رہے تھے۔ مولانا محمود الحسن نے ہندوستان کو آزاد کروانے کے لیے ایک منظم جدوجہد چلانے کا منصوبہ تیار کیا تھا مگر اس منصوبے کا راز افشا ہونے کے بعد انہیں مالٹا میں اسیری کے ایام بسر کرنا پڑے۔ 8 جون 1920ء کو مولانا وطن واپس آئے اور اسی برس 30 نومبر کو ان کا انتقال ہوگیا۔
1924-11-13

بی اماں ٭13 نومبر1924ء کو جدوجہد آزادی کی مشہور خاتون رہنما بی اماں وفات پاگئیں۔ بی اماں کا اصل نام آبادی بیگم اور وہ 1852ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی شادی رام پور کی ایک معزز شخصیت عبدالعلی خان سے ہوئی۔ ان کے صاحبزادگان میں مولانا شوکت علی اور مولانامحمد علی جوہرنے تحریک پاکستان میں نہایت اہم کردار ادا کیا اور علی برادران کے نام سے مشہور ہوئے۔ 1921ء میں جب علی برادران کو قید و بند کی صعوبت کا سامنا کرنا پڑا تو بی اماں نے یہ زمانہ بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ گزارا۔ وہ ہندوستان کے گوشے گوشے میں گئیں اور اپنی تحریروں سے مسلمانوں کا جذبہ بلند کرتی رہیں۔ اسی زمانے میں اقبال سہارن پوری کی ایک نظم صدائے خاتون ہندوستان بھر کی مقبول ترین نظم بن گئی۔ جس کا شعر تھا: بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو 13 نومبر 1924ء کو بی اماں کا انتقال ہوگیا۔