1962-09-23

پاکستان کی قدیم ترین مسجد ٭23 ستمبر 1962ء کو بھمبھور میں پاکستان کی پہلی مسجد کے آثار کی برآمدگی مکمل ہوئی۔ 17 جون 1960ء کو جب ماہرین آثار قدیمہ کی زیر نگرانی‘ کراچی سے 37 میل دور بھنبھور کے مقام پر آثار قدیمہ کی کھدائی کا کام جاری تھا‘ ایک مسجد کے آثار برآمد ہوئے۔ اس مسجد کے ساتھ ہی کچھ کتبے بھی برآمد ہوئے جن پر خط کوفی میں تحریر کی گئی ایک عبارت کے مطابق یہ مسجد 109ھ (مطابق 727 ء) میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس تحریر کی برآمدگی کے بعد ماہرین آثار قدیمہ اور ماہرین مذہبیات اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مسجد پاکستان میں تعمیر ہونے والی‘ اولین مسجد تھی اور یہ مسجد محمد بن قاسم کے ساتھیوں نے تعمیر کروائی تھی۔ بھنبھور کے مقام پر برآمد ہونے والی پاکستان کی اس پہلی مسجد کا طول 122 فٹ اور عرض 120 فٹ تھا۔ اس کے چاروں طرف چونے کے پتھر کی اینٹوں کی ایک ٹھوس دیوار تھی جس کی موٹائی 3 تا 4 فٹ تھی۔ مسجد کے صحن کا طول 75 فٹ اور عرض 58 فٹ تھا۔ مغرب کی جانب ایک وسیع دالان تھا جس کی چھت لکڑی کے 33 ستونوں پر قائم تھی۔ اس مسجد کا نقشہ کوفہ اور واسط کی مساجد سے مشابہ تھا اور انہی کا تسلسل لگتا تھا۔
1976-10-12

فیصل مسجد اسلام آباد ٭1959ء میں جب اسلام آباد کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی تو ان منصوبہ سازوں کے ذہن میں ایک ایسی مسجد کا خاکہ بھی تھا، جو پرشکوہ بھی ہو، پر جمال بھی ہو اور اس جدید ترین شہر کی شناخت اور پہچان بھی ہو۔ اسلام آباد کا شہر آہستہ آہستہ بستا رہا اور جب 1966ء میں سعودی عرب کے شاہ فیصل پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو انہوں نے اس مسجد کے تمام تر اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کیا۔ 1968ء میں حکومت پاکستان نے اس مسجد کے ڈیزائن کے لئے ایک بین الاقوامی مقابلے کا اہتمام کیا۔ یہ مقابلہ ترکی کے جواں سال آرکٹیکٹ ویدت دلو کے نے جیتا۔ مارچ 1975ء میں جب شاہ فیصل شہید کردیئے گئے تو حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ یہ مسجد ان کے نام سے معنون کردی جائے۔ چنانچہ 28 نومبر 1975ء کو حکومت نے اس مسجد کا نام ’’شاہ فیصل مسجد‘‘ رکھنے کا اعلان کردیا۔ اکتوبر 1976ء میںجب سعودی عرب کے فرمانروا شاہ خالد پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو حکومت پاکستان نے ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے بھائی کے نام سے معنون اس عظیم مسجد کا سنگ بنیاد نصب فرمائیں۔ چنانچہ 12 اکتوبر 1976ء مطابق 17 شوال 1396ھ کو شاہ خالد نے ایک باوقار تقریب میں اس عظیم الشان مسجد کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ فیصل مسجد کے مرکزی ہال کا رقبہ 51 ہزار 984 فٹ مربع فٹ ہے مرکزی ہال کے چاروں طرف چار مینار ہیں جن میں سے ہر ایک کی بلندی 286 فٹ ہے۔ مسجد کا مرکزی ہال ایک خیمے کی شکل میں ڈیزائن کیا گیا ہے جس کی اونچائی اندرونی جانب سے 134 فٹ اور بیرونی جانب سے 150 فٹ ہے۔ اس مرکزی ہال میں پاکستان کے دو ممتاز مصوروں صادقین اور گل جی نے بھی آیات ربانی کی خطاطی کا شرف حاصل کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس ہال کے اوپر نصب کئے جانے والے طلائی ہلال کی تنصیب کا کام بھی گل جی نے انجام دیا تھا۔ یہ مسجد 10 سال کی شب و روز تعمیر کی بعد 2 جون 1986ء مطابق 23 رمضان المبارک 1406ھ کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ یوں وہ خواب جو شاہ فیصل نے 1966ء میں دیکھا تھا، دو دہائیوں کے بعد حقیقت کا روپ دھار گیا۔
1986-06-02

فیصل مسجد اسلام آباد ٭1959ء میں جب اسلام آباد کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی تو ان منصوبہ سازوں کے ذہن میں ایک ایسی مسجد کا خاکہ بھی تھا، جو پرشکوہ بھی ہو، پر جمال بھی ہو اور اس جدید ترین شہر کی شناخت اور پہچان بھی ہو۔ اسلام آباد کا شہر آہستہ آہستہ بستا رہا اور جب 1966ء میں سعودی عرب کے شاہ فیصل پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو انہوں نے اس مسجد کے تمام تر اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کیا۔ 1968ء میں حکومت پاکستان نے اس مسجد کے ڈیزائن کے لئے ایک بین الاقوامی مقابلے کا اہتمام کیا۔ یہ مقابلہ ترکی کے جواں سال آرکٹیکٹ ویدت دلو کے نے جیتا۔ مارچ 1975ء میں جب شاہ فیصل شہید کردیئے گئے تو حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ یہ مسجد ان کے نام سے معنون کردی جائے۔ چنانچہ 28 نومبر 1975ء کو حکومت نے اس مسجد کا نام ’’شاہ فیصل مسجد‘‘ رکھنے کا اعلان کردیا۔ اکتوبر 1976ء میںجب سعودی عرب کے فرمانروا شاہ خالد پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو حکومت پاکستان نے ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے بھائی کے نام سے معنون اس عظیم مسجد کا سنگ بنیاد نصب فرمائیں۔ چنانچہ 12 اکتوبر 1976ء مطابق 17 شوال 1396ھ کو شاہ خالد نے ایک باوقار تقریب میں اس عظیم الشان مسجد کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ فیصل مسجد کے مرکزی ہال کا رقبہ 51 ہزار 984 فٹ مربع فٹ ہے مرکزی ہال کے چاروں طرف چار مینار ہیں جن میں سے ہر ایک کی بلندی 286 فٹ ہے۔ مسجد کا مرکزی ہال ایک خیمے کی شکل میں ڈیزائن کیا گیا ہے جس کی اونچائی اندرونی جانب سے 134 فٹ اور بیرونی جانب سے 150 فٹ ہے۔ اس مرکزی ہال میں پاکستان کے دو ممتاز مصوروں صادقین اور گل جی نے بھی آیات ربانی کی خطاطی کا شرف حاصل کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس ہال کے اوپر نصب کئے جانے والے طلائی ہلال کی تنصیب کا کام بھی گل جی نے انجام دیا تھا۔ یہ مسجد 10 سال کی شب و روز تعمیر کی بعد 2 جون 1986ء مطابق 23 رمضان المبارک 1406ھ کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ یوں وہ خواب جو شاہ فیصل نے 1966ء میں دیکھا تھا، دو دہائیوں کے بعد حقیقت کا روپ دھار گیا۔
1992-12-06

بابری مسجد ٭6 دسمبر 1992ء کو اترپردیش (بھارت) کے شہر اجودھیا میں لاکھوں انتہا پسند ہندوئوں نے مغل دور کی یادگار بابری مسجد پر یلغار کردی۔ چند گھنٹوں کے اندر انہوں نے مسجد کو ملبے کا ڈھیر بنادیا اور اس ملبے پر راتوں رات ایک مندر تعمیر کرلیا۔ بابری مسجد 1527ء میں پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے تعمیرکروائی تھی۔ کئی صدیوں تک یہ مسجد ، مسلمانوں کی عبادت گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی اور اس مسجد کے بارے میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد 1885ء میں ہندو انتہا پسندوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مسجد جس مقام پر تعمیر کی گئی ہے وہاں رام چندر جی نے جنم لیا تھا لہٰذا اس مسجد کو شہید کرکے یہاں مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ دعویٰ اتنا بے بنیاد تھا کہ جج نے ، جو خود بھی ہندو تھا، محض پانچ دن کی سماعت کے بعد اس مقدمے کو خارج کردیا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر جڑ پکڑ گیا اورہندوئوں نے اس مسجد کے مقام پر ایک مرتبہ پھر متنازع بنانے کی کوشش کی۔ 22 دسمبر 1949ء کو کسی نے اس مسجد میں رام اور سیتا کے مجسمے رکھ دیئے، اس واقعے کے بعد ہندوئوں اور مسلمانوں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور حکومت نے اس مسجد کو مقفل کردیا۔اس کے بعد یہ معاملہ کئی دہائیوں تک جوں کا توں رہا تاہم جب 1990ء میں بھارت میں بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو 6 دسمبر 1992ء کو یو پی کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ کی ایماپرہندو انتہا پسندوں نے اس مسجد پر حملہ کرکے اسے شہید کردیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستان بھر میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جس میں اندازاً 2 ہزار مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس سانحے پر پوری پاکستانی قوم بھی سراپا احتجاج بن گئی۔ حکومت پاکستان نے 8 دسمبر1992ء کو ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کردیا، تمام دفاتر اور کاروباری مراکز بن رہے اور ملک بھر میں احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ 10 دسمبر کو وزیراعظم نواز شریف نے اس مسئلے پر مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی تمام سیاسی جماعتوں کا ایک اجلاس طلب کرلیا۔ اس اجلاس میں اپوزیشن کی نمائندہ سیاسی جماعتوں نے تو شرکت نہیں کی تاہم کچھ چھوٹی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے شرکت کی۔ اجلاس کے اختتام پر اعلان اسلام آباد جاری کیا گیا جس میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ بابری مسجد کو فوری طور پر ازسرنو تعمیر کیا جائے، بھارت میں تمام مساجد کو تحفظ فراہم کیا جائے اور مسلمانوں کے جان و مال اور املاک کو جو نقصان پہنچا ہے بھارتی حکومت اس کا معاوضہ ادا کرے۔ ادھر ہندوستان میں یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر عدالت تک جا پہنچا۔ 30 ستمبر 2010ء کو ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اس مسجد کے تین حصے کرکے اسے مسلمانوں اور ہندوئوں میں تقسیم کردیا جائے تاہم مسلمانوں نے یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کردیا اوراب اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔