1940-03-23

قرارداد پاکستان ٭23 مارچ 1940ء وہ تاریخی دن ہے جب آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے مشہور منٹو پارک میں اپنے 27 ویں سالانہ اجلاس میں وہ تاریخی قرارداد پیش کی جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ مسلم لیگ کے اس سالانہ اجلاس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے کی تھی اور یہ قرارداد شیر بنگال مولوی فضل حق نے پیش کی تھی۔ اس قراردادمیں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کے وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت میں ہیں اور جو جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ان کی حد بندی اس طرح کی جائے کہ وہ خود مختارآزاد مسلم ریاستوں کی شکل اختیار کرلیں۔ اس قرارداد کی تائید چوہدری خلیق الزماں نے کی اور اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کیا۔ اس کی تائید میں خان اورنگ زیب خان، حاجی سر عبداللہ ہارون، نواب اسماعیل خان، قاضی محمد عیسیٰ، بیگم مولانا محمد علی جوہر، آئی آئی چندریگر، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دوسرے مسلم اکابر نے تقاریر کیں۔ابتدا میں اس قرارداد کو تقسیم ہند کی قرارداد یا قرارداد لاہور کہا گیا تھا مگربیگم محمد علی جوہر نے اپنی تقریر میں اس کو پاکستان کی قرارداد کہا۔ہندوستانی پریس نے طنز کے طور پر اس نام کو ایسا اچھالا کہ لفظ پاکستان زبان زد خاص و عام ہوگیا۔ 7 برس کی جدوجہد کے بعد ہندوستان کے مسلمان اپنا وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کا نام پاکستان ہے۔
1942-03-22

کرپس مشن ٭1942ء کے ابتدائی ایام میں جب ایشیا میں برطانوی مقبوضات ایک ایک کرکے برطانیہ کے ہاتھ سے نکلنے لگے تو اس نے ہندوستان کے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اور جنگ میں ان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے 22 مارچ 1942ء کو سر اسٹیفورڈ کرپس کی سربراہی میں ایک مشن ہندوستان بھیجا جس کا مقصد ہندوستان کے سیاسی رہنمائوں کے ساتھ گفت و شنید کرکے ہندوستان کے آئینی مسائل کا حل تلاش کرنا تھا۔سر اسٹیفورڈ کرپس نے قائداعظم محمد علی جناح، پنڈل جواہر لعل نہرو، مہاتما گاندھی، ابوالکلام آزاد اور متعدد رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اور اپنی تجاویز کا اعلان کیا جو کرپس تجاویز کہلاتی ہیں۔ ان تجاویز میں کہا گیا تھا کہ حکومت برطانیہ ہندوستان میں ایک نئی وفاقی مملکت قائم کرنا چاہتی ہے جس کو دولت مشترکہ کے دوسرے رکن ممالک کے برابر ڈومینین کا درجہ حاصل ہوگا۔وہ رسمی طور پر تاج برطانیہ کا وفادار ہوگا تاہم اپنے داخلی اور خارجی امور میں کسی ملک کا زیر دست نہ ہوگا۔سر اسٹیفورڈ کرپس کی یہ تجاویز مسلم لیگ اور کانگریس کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی مسترد کردی اور 12 اپریل 1942ء کو سر اسٹیفورڈ کرپس بے نیل مرام وطن واپس لوٹ گئے۔
1946-04-09

قرارداد دہلی ٭23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ نے لاہو رمیں جو مشہور قرارداد منظور کی تھی اور جسے بعدازاں قرارداد پاکستان قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بارے میں 1946ء تک خاصا ابہام پایا جاتا تھا۔ کیونکہ اس قرارداد میں آزاد مسلم ریاستوں کا تصور پیش کیا گیا تھا اور ایک واحد ریاست پاکستان کا خیال تک بھی اس قرارداد میں دور دور تک موجود نہ تھا۔ چنانچہ جب اپریل 1946ء میں دہلی میں مسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان کا کنونشن، قائداعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت منعقد ہوا تو اس میں مشہور و معروف مسلم لیگی لیڈر جناب حسین شہید سہروردی کی تجویز پر ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں منجملہ دیگر امور کے یہ بھی واضح کردیا گیا تھا کہ پاکستان ایک واحد مقتدر ریاست ہوگی۔ یہ قرارداد تاریخ میں قرارداد دہلی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد کے ذریعہ مسلم لیگ کی سرکاری دستاویزات یا قراردادوں میں پہلی مرتبہ لفظ ’’پاکستان‘‘ استعمال کیا گیا۔ اس قرارداد دہلی کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’ہندوستان کے شمالی مشرق میں بنگال اور آسام، شمال مغرب میں پنجاب،صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان یعنی پاکستان کے علاقے جہاں مسلمانوں کو غالب اکثریت حاصل ہے وہاں واحد مقتدر آزاد مملکت کی تشکیل کی جائے اور اس امر کا واضح اعلان کیا جائے کہ پاکستان کا قیام بلاتاخیر عمل میں لایا جائے گا‘‘۔ قرارداد دہلی کی منظوری اور اشاعت سے ایک طرف تو اعتراضات ختم ہوگئے دوسری طرف قرارداد لاہور کی تکمیل ہوگئی۔ یہ تاریخی قرارداد 9 اپریل 1946ء کو منظور کی گئی تھی۔
1947-08-10

پاکستان کی دستور ساز اسمبلی ٭10 اگست 1947ء وہ تاریخی دن ہے جب کراچی میں سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل نے کی اور اجلاس کا آغاز مولانا شبیر احمد عثمانی کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ یہ اجلاس 14 اگست 1947ء تک جاری رہا۔ اس اجلاس میں مشرقی بنگال کے 44، پنجاب کے 17، سرحد کے 3، بلوچستان کے ایک اور صوبہ سندھ کے 4 نمائندے شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں قائداعظم محمد علی جناح کو اسمبلی کا پہلا صدر اور مولوی تمیز الدین کو پہلا اسپیکر منتخب کیا گیا۔ اجلاس میں طے پایا کہ جب تک پاکستان کا مستقل آئین تیار نہیں ہوتا اس وقت تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کو بعض ترامیم کے ساتھ پاکستان کے آئین کی شکل دی جائے۔ پاکستان کی یہ پہلی دستور ساز اسمبلی 24 اکتوبر 1954ء تک قائم رہی، یہ وہ تاریخ تھی جب ملک غلام محمد نے اس اسمبلی کو توڑ کر ملک میں ہنگامی حالت نافذ کی تھی۔
1947-08-14

پاکستان کا قیام ٭ 14اور15اگست 1947ء کی درمیانی شب مطابق 27 رمضان المبارک 1366 ھ رات ٹھیک بارہ بجے ،دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختار اور دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت کا اضافہ ہوا جس کا نام پاکستان ہے۔ اس سے قبل جمعرات 14 اگست 1947ء کو صبح 9 بجے دستور ساز اسمبلی کے ایک خصوصی اجلاس میں ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے پاکستان کی آزادی اور اقتدار کی منتقلی کا اعلان کیا۔ صبح سے ہی عمارت کے سامنے پرجوش عوام جمع تھے۔جب پاکستان کے نامزد گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اورلارڈ مائونٹ بیٹن ایک مخصوص بگھی میں سوار اسمبلی ہال پہنچے تو عوام نے پرجوش نعروں اور تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔ اسمبلی کی تمام نشستیں پر تھیں۔ گیلری میں ممتاز شہریوں‘ سیاست دانوں اور ملکی اور غیر ملکی اخباری نمائندوں کی بھاری تعداد موجود تھی۔ کرسیٔ صدارت پر دستور ساز اسمبلی کے صدر قائد اعظم محمد علی جناح تشریف فرما تھے اور ان کے برابر میں لارڈ مائونٹ بیٹن کی نشست تھی۔ دونوں اکابر نے جب اپنی اپنی نشستیں سنبھالیں تو کارروائی کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ سب سے پہلے لارڈ مائونٹ بیٹن نے شاہ انگلستان کا پیغام پڑھ کر سنایا جس میں قائد اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا : ’’برطانوی دولت مشترکہ کی اقوام کی صف میں شامل ہونے والی نئی ریاست کے قیام کے عظیم موقع پر میں آپ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے جس طرح آزادی حاصل کی ہے وہ ساری دنیا کے حریت پسند عوام کے لیے ایک مثال ہے۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ برطانوی دولت مشترکہ کے تمام ارکان جمہوری اصولوں کو سربلند رکھنے میں آپ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ اس پیغام کے بعد لارڈ مائونٹ بیٹن نے الوداعی تقریر کی اور پاکستان اور پاکستانی عوام کی سلامتی کے لیے دعا مانگی ۔ لارڈ مائونٹ بیٹن کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے شاہ انگلستان اور وائسرائے کا شکریہ ادا کیا اور انہیں یقین دلایا کہ’’ہمارا ہمسایوں سے بہتر اور دوستانہ تعلقات کا جذبہ کبھی کم نہ ہوگا اور ہم ساری دنیا کے دوست رہیں گے۔‘‘ اسمبلی کی کارروائی اور اعلان آزادی کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح‘ لارڈ مائونٹ بیٹن کے ہمراہ شاہی بگھی میں گورنر جنرل ہائوس واپس ہوئے۔ دوپہر دو بجے لارڈ مائونٹ بیٹن‘ نئی دہلی روانہ ہوگئے جہاںاسی رات12بجے بھارت کی آزادی کے اعلان کے ساتھ انہیں بھارت کے گورنر جنرل کا منصب سنبھالنا تھا۔
1949-05-02

واہ آرڈیننس فیکٹری ٭قیام پاکستان کے فوراً بعد پاکستان میں ایک ایسے کارخانے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی جہاں اسلحہ سازی کی جاسکے اور ملک کو اسلحہ سازی کی صنعت میں خودکفیل کیا جاسکے۔ 2 مئی 1949ء وہ یادگار دن تھا جب واہ کینٹ کے علاقے میں ایک اسلحہ ساز فیکٹری کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوا۔ یہ تعمیر تقریباً ڈھائی سال میں مکمل ہوئی اور 28 دسمبر 1951ء کو پاکستان کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے پاکستان کی اس پہلی آرڈی ننس فیکٹری کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا کے موجودہ غیر یقینی حالات کے پیش نظر پاکستان کے دفاع کو بہت اہمیت حاصل ہے اسی لیے مسلح افواج کی دیکھ بھال اور ان کے لیے بہترین اسلحے کی فراہمی کو دوسرے تمام کاموں پر فوقیت دی گئی ہے۔ پاکستان آرڈی ننس فیکٹری، پاکستان کی دفاعی ضروریات پورا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کررہی ہے اور یوں پاکستان کی تعمیر و ترقی کا ایک روشن مینارہ بن چکی ہے۔ (مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیے:http://www.pof.gov.pk)
1951-06-29

لطف اللہ خاں ٭یہ 29جون 1951ء کا قصہ ہے جب کراچی کی ایک تشہیری ادارے کے مالک جناب لطف اللہ خاں کو ان کے ایک کلائنٹ یونس علی محمد سیٹھ نے ایک ایسی ’’مشین‘‘ کے بارے میں بتایا جو آواز ریکارڈ کرتی تھی۔ یونس علی محمد سیٹھ نے انہیں مزید بتایا کہ یہ مشین ٹیپ ریکارڈر کہلاتی ہے۔ ان کے پاس نمونے کی ایک مشین موجود ہے اور وہ لطف اللہ خاں صاحب سے اس مشین کی تشہیری مہم تیار کروانا چاہتے ہیں۔ لطف اللہ خاں صاحب محض ٹیپ ریکارڈر کا لٹریچر پڑھ کراسی وقت اسے خریدنے پر آمادہ ہوگئے اور یوں پاکستان میں آنے والا پہلا ٹیپ ریکارڈر ان کی ملکیت بن گیا۔ لطف اللہ خان صاحب نے اس ٹیپ ریکارڈر پر سب سے پہلے اپنی والدہ کی آواز ریکارڈ کی اور پھر کچھ اہل خانہ اور احباب کی آوازیں۔ ایک دن ریڈیو سے بسم اللہ خان کی شہنائی نشر ہورہی تھی تو خاں صاحب نے اسے بھی ریکارڈ کرلیا۔ یہ تجربہ اچھا لگا تو انہوں نے ریڈیو سے مزید فن پارے ریکارڈ شروع کئے اور پھر اپنے گھر پر ایک چھوٹا سا اسٹوڈیو قائم کرکے خود بھی نجی طور پر فن کاروں کو ریکارڈ کرنے لگے۔لطف اللہ خاں صاحب کا یہ مجموعہ آہستہ آہستہ موسیقاروں، سازندوں، گلوکاروں، شاعروں، ادیبوں اور مذہبی عالموں کی تقاریر تک وسیع ہوگیا اورآوازوں کے اس خزانے میں کئی ہزار شخصیات کی آوازیں محفوظ ہوگئیں جن کا دورانیہ ہزاروں گھنٹوں تک پہنچتا ہے۔ لطف اللہ خاں ایک اچھے ادیب بھی ہیں۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’پہلو‘‘ قیام پاکستان سے قبل عدیلؔ کے قلمی نام سے شائع ہوا تھا۔ ان کی یادداشتوں کے مجموعے تماشائے اہل قلم، سرُ کی تلاش اورہجرتوں کے سلسلے کے نام سے اور ایک سفر نامہ ’’زندگی ایک سفر ‘‘کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔ 1999ء میں اکادمی ادبیات پاکستان نے انہیں ہجرتوں کے سلسلے پر وزیراعظم ادبی ایوارڈ بھی عطا کیا تھا۔
1951-12-28

پاکستان آرڈیننس فیکٹری ٭28 دسمبر 1951ء کو پاکستان کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے واہ میں پاکستان آرڈی ننس فیکٹری کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا کے موجودہ غیر یقینی حالات کے پیش نظر پاکستان کے دفاع کو بہت اہمیت حاصل ہے اسی لیے مسلح افواج کی دیکھ بھال اور ان کے لیے بہترین اسلحے کی فراہمی کو دوسرے تمام کاموں پر فوقیت دی گئی ہے۔
1954-08-13

پاکستان کا قومی ترانہ ٭13 اگست 1954ء کو پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ پاکستان کے قومی ترانہ کی دھن21 اگست 1949ء کو منظور ہوئی تھی اور اسے پہلی مرتبہ یکم مارچ 1950ء کو پاکستان میں ایران کے سربراہ مملکت کی آمد پر بجایا گیا تھا۔ 5 جنوری 1954ء کو پاکستان کی مرکزی کابینہ نے اس دھن کو سرکاری طور پر قومی ترانہ قرار دے دیا۔ اب اگلا مرحلہ اس دھن کے حوالے سے الفاظ کے چنائو کا تھا چنانچہ ملک کے تمام مقتدر شعرائے کرام کو اس ترانے کے گرامو فون ریکارڈز بھی بھجوائے گئے اور ہر رات ایک مخصوص وقت پر ریڈیو پاکستان سے اس ترانے کے نشر کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا تاکہ وہ اس کی دھن سے ہم آہنگ ترانہ تحریر کرسکیں۔ جواباً قومی ترانہ کمیٹی کو مجموعی طور پر 723 ترانے موصول ہوئے۔ ان ترانوں میں سے قومی ترانہ کمیٹی کو جو ترانے سب سے زیادہ پسند آئے وہ حفیظ جالندھری‘ حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کے لکھے ہوئے ترانے تھے۔ 4 اگست 1954ء کو پاکستان کی مرکزی کابینہ نے جناب حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کرلیا۔ 13 اگست 1954ء کو یہ ترانہ پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور یوں دنیا کے قومی ترانوں میں ایک خوبصورت ترانے کا اضافہ ہوگیا۔
1955-02-09

دستور ساز اسمبلی ٭9 فروری 1955ء کو سندھ چیف کورٹ نے پاکستان کی عدالتی تاریخ کے چند اہم ترین مقدمات میں سے ایک مقدمے کا فیصلہ سنادیا۔ یہ مقدمہ مولوی تمیز الدین نے دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے دائر کیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ یہ اسمبلی چونکہ قانون ساز اسمبلی ہونے کے ساتھ ساتھ دستور ساز اسمبلی بھی تھی اس لئے اس کو توڑنے کا حق کسی اتھارٹی کے پاس نہیں تھا۔ یہ اسمبلی دستور کی تکمیل پرازخودختم ہوجاتی اس سے قبل اس کی تحلیل کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ یہ خود اپنے آپ کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کرتی۔ مولوی تمیزالدین کا موقف یہ بھی تھا کہ اسمبلی کو توڑنے کے گورنر جنرل کے حکم نامہ میں یہ تو کہا گیا تھا کہ دستور ساز اسمبلی اپنی موجودہ شکل میں عوام کے اعتماد سے محروم ہوچکی ہے اور یہ اپنا کام مزید جاری نہیں رکھ سکتی مگر اس پورے اعلان نامہ میں اسمبلی کو توڑنے کا لفظ شامل نہیں تھا۔ ان کے خیال میں ایسا اس لئے تھا کہ گورنر جنرل کو معلوم تھا کہ ایسی کوئی اتھارٹی موجود ہی نہیں ہے جو اسمبلی کو توڑنے کا اختیار رکھتی ہو۔ 9 فروری 1955ء کو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرجارج کانسٹنٹائن کی سربراہی میں فل بنچ نے اس تاریخی مقدمے کا فیصلہ سنا دیاعدالت نے اپنے متفقہ فیصلہ میں لکھا کہ گورنر جنرل کا دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کا اقدام غیر قانونی تھا اور یہ کہ اسمبلی اور اس کے صدر قانون کی نظر میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ چنانچہ حکومت کو ان ذمہ داریوں کی ادائی کی راہ میں مزاحم نہیں ہونا چاہیے۔جسٹس محمد بخش میمن نے اپنی رائے لکھتے ہوئے کہا میں اس بات پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہوں کہ گورنر جنرل کو اسمبلی توڑنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ اسمبلی توڑنے کے اعلان نامے کی زبان بھی غیر معمولی ہے۔ اس میں صاف اور واضح الفاظ میں دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کا ذکر نہیں کیا گیا۔بالعموم جب کوئی حکم نامہ جاری کیا جاتا ہے تو اس میں قانون کی اس شق کا حوالہ دیا جاتا ہے جس کے تحت اختیار کو استعمال کیاگیا ہو۔مگر گورنر جنرل کے اعلان نامے کو تحریر کرنے والوں کے سامنے ایسا کوئی قانون ہی نہیں تھا جس کا وہ حوالہ دے سکتے۔