> <

1948-07-01
4064 Views
اسٹیٹ بنک آف پاکستان ٭پاکستان کو اپنے قیام کے فوراً بعد جن بے شمار انتظامی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے ایک بنکاری کا مسئلہ بھی تھا۔ ابتدا میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ چونکہ نیا ملک فوری طورپر اپنے قومی بنک کا قیام عمل میں نہیں لاسکتا اس لیے ایک سال چار ماہ تک (30 دسمبر 1948ء تک) ریزرو بنک آف انڈیا پاکستان کے لیے بھی زرکاری کے انتظامات کرتا رہے گاتاہم اس وقت کے آنے سے بہت پہلے قائداعظم نے پاکستان کے قومی بنک کے قیام کی منصوبہ بندی شروع کردی اور اس بنک کا ابتدائی خاکہ بہت جلد عملی روپ دھارنے لگا۔ 10مئی 1948ء کو قائد اعظم نے سربراہ مملکت کے طور پر اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے اجرا کا قانونی حکم جاری کیا۔ جس کے تحت یہ اعلان کیا گیا کہ پاکستان کا قومی بنک اسٹیٹ بنک آف پاکستان یکم جولائی 1948ء سے اپنا کام شروع کردے گا۔ ریزرو بنک آف انڈیا سے جو معاہدہ بنکاری کے ضمن میں 30 دسمبر 1948ء تک کے لیے تھا پاکستان نے پیش قدمی کرکے اسے چند ماہ پہلے ہی ختم کردیا اور یکم جولائی 1948ء کو نئی مملکت کی آزاد معیشت کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ 29 جون 1948ء کو قائداعظم کوئٹہ سے کراچی پہنچے۔ وہ گزشتہ ایک ماہ سے کوئٹہ اور بعد ازاں زیارت میں موسم گرما گزار رہے تھے۔ اگرچہ ان کے مشیر کہتے تھے کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے لیے کراچی میں ان کی آمد ضروری نہیں اور ان کے بحری اے ڈی سی کا خیال تھا کہ ’’ان کی تقریر کا مسودہ کراچی بھیج دینا کافی ہوگا۔‘‘لیکن قائد اعظم نے یہ تجویز قبو ل نہیں کی۔ وہ یہ تجویز قبول بھی کیسے کرتے اس لیے کہ پاکستان کی آزادمعیشت کے خواب کی عملی تعبیر وہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اس اہم موقع پر وہ خود موجود نہ ہوں۔ چنانچہ وہ بنک کے افتتاح سے دو دن پہلے کراچی پہنچ گئے۔ 29 جون 1948ء کو صبح دس بجے قائد اعظم کا طیارہ ماری پور کے ہوائی اڈے پر پہنچا جہاں وزیر اعظم‘ کابینہ کے دوسرے وزراء‘ اعلیٰ افسروں اور سیاسی کارکنوں نے ان کا استقبال کیا۔ یکم جولائی کو قائد اعظم گورنرجنرل ہائوس سے ایک بگھی میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی عمارت تک گئے اس بگھی کو چھ گھوڑے کھینچ رہے تھے اور اس کا محافظ دستہ شوخ سرخ رنگ کی وردیاں پہنے ہوئے تھے۔ قائد اعظم شاہانہ انداز میں بنک کی عمارت تک پہنچے جہاں ان کا پرجوش استقبال کیا گیا۔ تقریب میں مسلم ممالک کے نمائندے‘ دولت مشترکہ کے ارکان‘ امریکہ اور روس کے سفیر‘ متعدد ممالک کے ٹریڈ کمشنرز‘ صوبائی اور مرکزی وزراء اور معزز شہری شامل تھے۔ قائد اعظم نے اس موقع پر ایک تاریخی تقریر کی۔ یہ تقریر تحریری شکل میں تھی جسے قائد اعظم نے حاضرین کے سامنے پڑھا۔ معمول کے برعکس ان کا یہ اقدام تقریب کی اہمیت پر دلالت کرتا تھا اپنی اس تاریخی تقریر میں انہوں نے پاکستانی معیشت کے لیے اسلامی پہلوئوں کو پیش نظر رکھنے اور ایسے معاشرے کے قیام میں مددگار بننے پر زور دیا تھا جو سب کے لیے فائدہ مند ثابت ہو اور ایک مثالی اقتصادی نظام پیش کرے۔ قائد اعظم نے اس موقع پر جو تقریر کی اس کی کئی تاریخی حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے پاکستان کی مالی خود مختاری کی داغ بیل پڑی‘ دوسری یہ کہ معیشت کے اسلامی پہلوئوں پر حکومت کی پالیسی سامنے آئی اور سب سے بڑی تاریخی حیثیت یہ کہ‘ بدقسمتی سے یہ قائد اعظم کی آخری سرکاری مصروفیت اور ان کی آخری تقریر ثابت ہوئی‘ ایک بے حد قابل ذکر امر یہ ہے کہ اگر قائد اعظم کی دلچسپی اور پاکستانی ماہرین کی فرض شناسی کے تحت اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے قیام کی راہ وقت سے پہلے ہموارنہ ہوجاتی تو پاکستان کا قومی بنک اس اعزاز سے محروم رہ جاتا جو اسے پاکستان کے بانی اور اس کے پہلے سربراہ کے ہاتھوں افتتاح کی شکل میں حاصل ہوا۔  
1958-09-08
2629 Views
گوادر ٭8 ستمبر 1958ء کو گوادر پاکستان کا حصہ بن گیا۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس شہر پر 1581ء میں پرتگیزیوں نے قبضہ کیا تھا۔ سترہویں صدی کے اوائل میں اس شہر پر گچکی بلوچوں کا قبضہ ہوا۔ 1736ء  میں انہوں نے گوادر کو ایران کے نادر شاہ کے حوالے کردیا۔ تین سال بعد پھر گچکی قبیلہ برسراقتدار آگیا مگر 1778ء میں خان آف قلات نے گوادر پر قبضہ کرلیا۔ 1784ء میں مسقط کے شہزادے سید سلطان نے اپنے باپ سے بغاوت کرکے جب مکران میں پناہ حاصل کی تو خان آف قلات ناصر خان اول نے ان کی بڑی خاطر مدارت کی اور ان کی مہمانی کے طور پر گوادر کا علاقہ ان کے حوالے کردیا۔ 1792ء میں سید سلطان مسقط اور اومان کے سلطان بن گئے لیکن انہوں نے گوادر کو اپنی عملداری میں شامل رکھا حالانکہ اب وہ گوادر کی آمدنی کے محتاج نہ تھے۔ انگریزوں نے جب قلات پر قبضہ کیا تو یہ صورتحال بدستور قائم رہی اور 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت بھی گوادر سلطنت اومان کا حصہ تھا۔ پاکستان نے اپنے قیام کے فوراً بعد گوادر کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائی۔ 1949ء  میں اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات بھی ہوئے جو کسی فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔ 1956ء میں جب سرفیروز خان نون پاکستان کے وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے یہ مسئلہ دوبارہ زندہ کیا۔ 1957ء میں جب وہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اس سلسلے میں یہ قانونی نکتہ اٹھایا کہ گوادر کی حیثیت ایک جاگیر کی ہے۔ چونکہ حکومت پاکستان نے وہ تمام جاگیریں منسوخ کردی ہیں جو حکومت برطانیہ نے بہت سے لوگوں کو اپنی خدمات کے صلہ میں یا دوسرے سیاسی اسباب کی بنا پر دی تھیں اس لیے گوادر کی جاگیر کی تنسیخ بھی کی جاسکتی ہے۔ برطانوی حکام نے پاکستان کے اس موقف کی تائید کی اور ان کی مدد کے باعث معاوضہ کی ادائی کے بعد گوادر کا علاقہ 8 ستمبر 1958ء کو پاکستان کا حصہ بن گیا اور آغا عبدالحمید نے صدر پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سے گوادر اور اس کے نواحی علاقوں کا نظم و نسق سنبھال لیا۔ یکم جولائی 1970ء کو ون یونٹ کے خاتمے کے بعد گوادر کا شہر صوبہ بلوچستان میں شامل ہوا اور ضلع مکران کا حصہ بن گیا لیکن اس شہر کی تجارتی اور ساحلی اہمیت کے باعث جلد ہی اسے مکمل ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔  
1960-02-24
4543 Views
اسلام آباد ٭1959ء میں لیفٹیننٹ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کی سربراہی میں قائم ہونے والا ایک کمیشن پاکستان کے دارالحکومت کے طور پر کراچی کو ناموزوں قرار دے چکا تھا اور اعلان کرچکا تھا کہ پاکستان کا نیا دارالحکومت راولپنڈی کے نزدیک پوٹھوہار کے علاقے میں مارگلہ پہاڑی کے دامن میں آباد کیا جائے گا۔ مگر اب بھی ملک کے اس مجوزہ دارالحکومت کا نام رکھے جانے کا مرحلہ باقی تھا۔ اس سلسلے میں حکومت کو بہت سی تجاویز موصول ہوئیں جن میں اس شہر کا نام جناح آباد‘ جناح پور‘ ایوب آباد‘ مسلم آباد یا اسلام آباد رکھے جانے کے لیے کہا گیا تھا۔ 24 فروری 1960ء کو فیلڈ مارشل ایوب خان کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں تمام تجاویز کا جائزہ لیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ پاکستان کے اس مجوزہ وفاقی دارالحکومت کا نام اسلام آباد ہوگا۔ یہ نام عارف والا سے تعلق رکھنے والے ایک اسکول ٹیچر قاضی عبدالرحمن نے تجویز کیا تھا۔ کابینہ کے اس فیصلے کا اعلان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کیا جو ان دنوں وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد کا نام نہ صرف لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ اس سے مجوزہ دارالحکومت کو ایک واضح مقصد اور امتیاز بھی حاصل ہوتا ہے۔28 مئی 1960ء کو صدر ایوب خان کی صدارت میں شکر پڑیاں کی پہاڑی پر وفاقی کابینہ کا ایک اور اجلاس منعقد ہوا جس میں نئے وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان کی‘ جو یونانی تعمیراتی ادارے‘ ڈوکسی ایڈس ایسوسی ایٹس نے تیار کیا تھا‘ منظوری دے دی گئی۔  
1971-01-15
3644 Views
مزار قائد اعظم ٭15 جنوری 1971ء کو قائد اعظم کے مزار کی تعمیر پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی۔ اس موقع پر صدر مملکت جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ شیریں بائی کے ہمراہ قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں ان کا استقبال پرنسپل اسٹاف آفیسر اور قائد اعظم میموریل بورڈ کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ایس جی ایم پیرزادہ نے کیا۔اس موقع پر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے قائد اعظم کے مزار کا تفصیلی معائنہ کیا اور قائد اعظم اور ان کے رفقا کے مزارات پر فاتحہ خوانی کی۔ انہوں نے اعزازی مشیر تعمیرات انجینئر مسٹر ایم رحمن اور آرکیٹکٹ ایم اے احد کا شکریہ ادا کیا جن کی لگن اور توجہ سے یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔ قائد اعظم کے مزار کا سنگ بنیاد 31 جولائی 1960ء کو اس وقت کے صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے رکھا تھا۔ اس کی تعمیر بڑی سست روی کے ساتھ آگے بڑھتی رہی تاہم اس میں اس وقت تیزی آئی جب صدر محمد یحییٰ خان نے اپریل 1969ء میں اس کا معائنہ کیا اور لیفٹیننٹ جنرل ایس جی ایم پیرزادہ کی سربراہی میں ایک بورڈ تشکیل دیا۔ قائد اعظم کے مزار پر تینوں مسلح افواج کے دستے باری باری پہرہ دیتے ہیں۔ مزار کی تعمیر کی تکمیل کے پہلے دن 15 جنوری 1971ء کو پاک بحریہ کے دستوں نے پہرہ دیا تھا۔  
1971-02-16
3559 Views
شاہراہ قراقرم ٭16 فروری 1971ء کو پاکستان کی بری فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالحمید خان نے بلتت (ہنزہ) میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شاہراہ قراقرم کا افتتاح کیا۔ یہ شاہراہ مغربی پاکستان کے انتہائی شمالی علاقوں ہنزہ اور گلگت کو عوامی جمہوریہ چین کے صوبہ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملاتی ہے۔ شاہراہ قراقرم اس قدیم شاہراہ ریشم کی جگہ تعمیر ہوئی ہے جہاں سے پرانے زمانے میں ہندوستان سے چین کو جانے والے تجارتی قافلے گزرا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شاہراہ بند ہوگئی مگر اب چین اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے دوستانہ اور تجارتی روابط کے پیش نظر اس شاہراہ کو ازسرنو تعمیر کیا گیا اور اسے شاہراہ قراقرم کا نام دیا گیا۔ شاہراہ قراقرم کے افتتاح کے موقع پر چین کے وزیر مواصلات مسٹر یانگ چیہہ اور پاکستان کی بری فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالحمید خان نے اپنی اپنی حکومتوں کی جانب سے دستاویزات پر بھی دستخط کیے۔  
1986-05-28
2590 Views
پارلیمنٹ ہائوس ٭28 مئی 1986ء کو وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کی پرشکوہ عمارت کا افتتاح کیا۔ پارلیمنٹ ہائوس کی عمارت کا ڈیزائن امریکہ کے ممتاز آرکیٹیکٹ ایڈورڈ ڈیورل اسٹون نے تیار کیا تھا جو اس سے پہلے پاکستان کی کئی اور اہم عمارتوں کے ڈیزائن تیار کرچکے تھے۔ ان عمارتوں میں واپڈا ہائوس لاہور، پی این ایس سی بلڈنگ کراچی اور ایوان صدر اسلام آباد کے نام سرفہرست ہیں۔ پارلیمنٹ ہائوس کی یہ خوبصورت عمارت اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر واقع ہے۔ اس عمارت میں قومی اسمبلی اور سینیٹ، دونوں کے اجلاس منعقد ہونے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس عمارت میں 370 ارکان اور تقریباً 500 مہمانوں کے بیٹھنے کی جگہ موجود ہے۔ یہ ایک مستطیل نما عمارت ہے جو اسلامی فن تعمیر کی ایک بنیادی شکل ہے۔ پارلیمنٹ ہائوس کا سنگ بنیاد 14 اگست 1974ء کو پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا تھا۔ اس کی تعمیر تقریباً بارہ برس میں مکمل ہوئی اور 28 مئی 1986ء کو اس کے افتتاح کا اعزاز ایک اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کے حصے میں آیا۔  
2004-05-25
4927 Views
شکر پڑیاں ٭25 مئی 2004ء کو صدر جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد میں شکرپڑیاں کے مقام پر قومی یادگار کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ یادگار ان محسنوں کے نام سے منسوب کی گئی ہے جنہوں نے جدوجہد آزادی کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس موقع پر صدر جنرل پرویز مشرف نے کہاکہ ہم اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کریں گے اور دنیا پر ثابت کریں گے کہ ہم فن تعمیر، فنون لطیفہ اور موسیقی کو جانتے ہیں۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ اس قومی یادگار پر 387.8 ملین روپے لاگت آئے گی۔  
UP