> <

1958-02-26
3294 Views
کوٹ ڈیجی ٭26 فروری 1958ء کو ضلع خیرپور میں خیرپور میرس سے پندرہ میل کے فاصلے پر کوٹ ڈیجی کے مقام پر ایک ایسی قدیم تہذیب کے آثار دریافت ہوئے جو موئن جودڑو کی تہذیب سے بھی پرانے تھے۔ یہ دریافت شدہ آثار 600 فٹ طویل اور 400 فٹ عریض رقبے پر پھیلے ہوئے تھے۔ یہ علاقہ دو حصوں میں منقسم تھا۔ ایک حصہ شہر اور قلعے پر جبکہ دوسرا حصہ عوام کے مکانات پر مشتمل تھا۔ کوٹ ڈیجی کی ایک اور وجہ شہرت اس کا قلعہ ہے جسے دنیا کے چند بڑے قلعوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس قلعہ کی تعمیر 1797ء میں شروع ہوئی اور 32 سال میں مکمل ہوئی۔ یہ قلعہ پانچ ہزار فٹ لمبا، تین ہزار فٹ چوڑا اور زمین سے 70 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ اس قلعہ کو قلعہ احمد آباد بھی کہتے ہیں جو کوٹ ڈیجی کا پرانا نام ہے۔  
1967-07-26
10746 Views
مینار پاکستان ٭مینار پاکستان‘ ایک عظیم قومی شاہکار ہے‘ یوں لگتا ہے کہ ہماری تاریخ کا وہ یادگار لمحہ اس مینار کی شکل میں مجسم ہوگیا ہے جب برصغیر کے مسلمانوں نے استبداد کے طویل سیاہ دور کے بعد ایک علیحدہ مسلم ریاست کو اپنی واحد منزل قرار دیا تھا۔ یہ مینار لاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب اقبال پارک میں عین اس مقام پر تعمیر کیا گیا جہاں 23 مارچ 1940ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اسی اجلاس میں وہ تاریخی قرارداد منظور ہوئی تھی جسے بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ مینار پاکستان کا سنگ بنیاد 23 مارچ 1960ء کو رکھا گیا تھا تاہم اس وقت یہ طے نہیں ہوا تھا کہ یہاں تعمیر کی جانے والی ’’یادگار‘‘ کی نوعیت اور شکل کیا ہوگی۔ 11 اپریل 1962ء کو حکومت نے ایک روسی نژاد آرکیٹکٹ نصر الدین مرات کے ڈیزائن کردہ مینار کو اس ’’یادگار‘‘ کے لیے منظور کیا اور یوں اس تاریخی مینار کی باضابطہ تعمیر کا آغاز ہوا جو 26 جولائی 1967ء کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ مینار پاکستان کی ڈیزائننگ میں بڑی تیکنیکی مہارت سموئی گئی ہے اور کچھ اس قسم کا سازو سامان استعمال کیا گیا ہے جس سے پاکستان کے ابتدائی ادوار میں پیش آنے والی مشکلات کی عکاسی ہوتی ہے۔ مثلاً مینار کی بنیاد کے نیچے مختلف تختے ہیں‘ پہلا تختہ بڑا کھردرا اور ناتراشیدہ ہے یہ اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان آزادی کے وقت کس دگرگوں حالت میں تھا۔ دوسرے تختے میں پتھروں کو ترتیب و تراش دے دی گئی ہے۔ تیسرے تختے میں پتھروں میں ملائمت پیدا کی گئی ہے اور چوتھے تختے پر سنگ مرمر استعمال کیا گیا ہے۔ ان علامتوں سے اس امر کی ترجمانی ہوتی ہے کہ پاکستان نے کس طرح آہستہ آہستہ ترقی کے مدارج طے کیے ہیں۔ مینار پاکستان کی بلندی 196 فٹ 6 انچ ہے۔ 180 فٹ تک اسے لوہے اور کنکریٹ سے تعمیر کیا گیا ہے باقی ساڑھے سولہ فٹ میں اسٹین لیس اسٹیل کا ایک گنبد بنایا گیا ہے جس سے سورج کی روشنی منعکس ہوکر ماحول کو روشن کرتی ہے۔ یہ مینار ہائپربولا ڈیزائن میں تعمیر کیا گیا ہے اس ڈیزائن میں عمارت کی چوڑائی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ مینار پاکستان پر 19 تختیاں نصب ہیں جن پر قرارداد پاکستان‘ قرارداد دہلی‘ قومی ترانہ‘ اللہ تعالیٰ کے 99 اسمائے حسنہ‘ قائد اعظم کی تقاریر کے اقتباسات‘ علامہ اقبال کے اشعار اور قرآن مجید کی آیات تحریر کی گئی ہیں جن کی خطاطی حافظ محمد یوسف سدیدی‘ صوفی خورشید عالم خورشید رقم‘ محمد صدیق الماس رقم اوراقبال ابن پروین رقم نے انجام دی ہے۔
1977-06-05
3703 Views
آثار قدیمہ ٭5 جون 1977ء کو فرانس کے ماہرین آثار قدیمہ نے بلوچستان میں درہ بولان کے دامن میں مہر گڑھ کی مقام پر 3000 سے 7000 برس قبل مسیح کے آثار کی دریافتگی کا اعلان کیا۔ ان کے اس کے اعلان کے مطابق مہر گڑھ کی تہذیب موئن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیب سے بھی 4000 سال پرانی تھی۔ ان ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق کے مطابق مہر گڑھ کے لوگ مٹی کے بنے ہوئے گھروں میں رہتے تھے۔ وہ مویشی پالتے تھے، مکئی اور گندم کی کاشت کرتے تھے اور دھات اور مٹی کے بنے ہوئے برتن بھی استعمال کرتے تھے۔  
1978-07-30
4023 Views
زیارت ریذیڈنسی ٭30 جولائی 1978ء کو حکومت پاکستان نے زیارت (بلوچستان) کی اس ریذیڈنسی کا، جس میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام بسر کئے تھے نام تبدیل کرکے ’’قائداعظم ریذیڈنسی‘‘ رکھ دیا۔ زیارت کوئٹہ سے ایک سو بائیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور سطح سمندر سے 2453 میٹر بلند ہے۔ اس کا مقامی نام غوسکی تھا تاہم یہ مقام حضرت ملا طاہر رحمت اللہ بابا خرواری کے مزار کی نسبت سے زیارت کے نام سے مشہور ہوگیاتھا۔یہ مزار زیارت سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ قائد اعظم ریزیڈنسی اسی وادئ زیارت کے خوبصورت اور پر فضامقام پر واقع ہے۔ لکڑی سے تعمیر کی گئی یہ خوبصورت رہائش گاہ اپنے بنانے والے کے اعلیٰ فن کی عکاس ہے۔ یہ رہائش گاہ 1892ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس سے نوسال قبل1883 میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹ نے زیارت کو اپنا گرمائی مرکز قرار دیا تھا۔ اوریہاں ایک سینی ٹوریم بنانے کے احکامات جاری کیے تھے۔قیام پاکستان کے بعد اس رہائش گاہ کی تاریخی اہمیت میں اس وقت اضافہ ہوا جب14جولائی1948کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ناسازئ طبع کے باعث یہاں تشریف لائے۔ قائد اعظم نے13 اگست 1948ء تک اسی ریزیڈنسی میں قیام کیا۔ ریزیڈنسی میں موجود کمروں میں سے ایک کمرا محترمہ فاطمہ جناح اورایک قائد اعظم کے ذاتی معالج کرنل الٰہی بخش کے لیے تھا، جبکہ ایک کمرا قائد اعظم کے ذاتی معتمد کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ یہ عمارت آج بھی قائد اعظم کی بارعب شخصیت کا احساس دلاتی ہے۔اس تاریخی عمارت کی تصویر پاکستان کے سو روپے کے بینک نوٹ کے عقبی رخ پر بھی موجود ہے۔سات جنوری 1977ء کو سینٹ آف پاکستان نے زیارت ریزیڈنسی کو قومی ورثہ قرار دینے اور اس کانام قائد اعظم ریزیڈنسی رکھنے کی منظوری دی تھی۔ 30 جولائی 1978ء  کو حکومت پاکستان نے اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا اعلان کردیا۔ 15 جون 2013 ء کو بلوچستان لبریشن آرمی نے اس ریزیڈنسی کو بم دھماکوں سے تباہ کردیا اور یوں قائد اعظم سے نسبت رکھنے والی یہ تاریخی عمارت تاریخ کا حصہ بن گئی۔
2000-10-28
3019 Views
 فوڈ اسٹریٹ ٭پاکستان کی پہلی فوڈ اسٹریٹ کا افتتاح28 اکتوبر 2000ء کو ہواتھا۔ یہ فوڈ اسٹریٹ لاہور کے مشہور محلے گوالمنڈی میں چیمبر لین روڈ پر قائم کی گئی تھی۔ اس سڑک پر کھانے پینے کے مختلف چھوٹے بڑے ریسٹورنٹ مدتوں سے قائم تھے جنہیں نیشنل کالج آف آرٹس کے طلبہ اور اساتذہ نے مل کرباہمی طور پر ہم آہنگ کیا اوراسے ایک فوڈ اسٹریٹ کی شکل دے دی۔ لاہور کی یہ فوڈ اسٹریٹ نہ صرف اہل لاہور میں بے حد مقبول ہوئی بلکہ پاکستان بھر کے عوام اب جب بھی لاہور جاتے ہیں وہ اس اسٹریٹ کا دورہ ضرور کرتے ہیں۔ لاہور کی اس فوڈ اسٹریٹ کے کامیاب تجربے کے بعد نہ صرف لاہور میں بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اس قسم کی مزید فوڈ اسٹریٹس قائم ہوچکی ہیں۔    
UP